اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک نے کہاہے کہ موسمیاتی تبدیلی عصر حاضر کا سب سے بڑا چیلنج ہے ،ہمیں ابھرتی ہوئی عالمی بے ترتیبی میں پائیدار ترقی تلاش کرنا ہے ،موسمیاتی تبدیلی اور انسانی ترقی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مربوط کوششیں درکار ہیں ، وسائل کا موثر استعمال انسانی ترقی کا فروغ قومی ترجیح ہے۔ منگل کو ایس ڈی پی ائی کی 28 ویں پائیدار ترقی کانفرنس ایس ٹی پی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے بچنے کے لیے ہمیں پائیدار نظام کو اپنانا ہوگا، سال 2022 کے تباہ کن سیلاب سے تقریباً 1700 سے 2000 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 80 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے، متاثرین میں خواتین، مرد، بزرگ اور بچے شامل تھے، ہزاروں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور صدیوں پرانی تہذیب کے آثار پانی میں بہہ گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس سیلاب سے ہونے والے مالی نقصانات کا تخمینہ 32 سے 40 ارب ڈالر کے درمیان لگایا گیا ہے جو اس وقت ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا 15 سے 18 فیصد بنتا ہے۔ یہ تباہی پاکستان کی تاریخ کی بدترین قدرتی آفات میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیلاب کی وجہ سے ہماری معیشت کمزور ہوئی، سیلاب کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ، سیلاب کی وجہ سے ہمارے بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ،سلاب کی وجہ سے ہماری ملکی معیشت کمزور ہوئی اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہمارے ثقافتی ورثے تباہ ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) کی درجہ بندی میں 180 ممالک میں سے تقریباً 167ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
عالمی فہرست کے مطابق پاکستان کی موجودہ پوزیشن ظاہر کرتی ہے کہ ملک کو پائیدار ترقی کے مختلف شعبوں میں ابھی طویل سفر طے کرنا ہے۔ مصدق ملک نے کہا کہ یہ اجلاس ماضی یا حال کے بارے میں نہیں بلکہ مستقبل اور ممکنہ تباہ کاریوں سے متعلق ہےاور اسی تناظر میں آئندہ کے اقدامات پر غور کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ کثیرالجہتی نظام اپنی افادیت کھو رہا ہے، دنیا تیزی سے دوطرفہ اور اب یکطرفہ پالیسیوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پانی کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے کا خدشہ سب سے بڑا خطرہ بن رہا ہے اور یہ صرف ایک ملک نہیں بلکہ تمام نچلی سطح پر واقع دریائی ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دنیا سچ بولے اور اس ناانصافی کے خلاف اواز اٹھائے۔
مصدق ملک نے کہا ہے کہ ہمالیہ کے دامن میں درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے، جس کے باعث وادیوں میں موسمی تغیرات کے سنگین اثرات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جب گلیشیئر پگھلنے لگیں گے تو ان کے دامن میں واقع وادیاں کبھی حد سے زیادہ پانی اور کبھی پانی کی شدید قلت کا سامنا کریں گی، جو بالآخر فوڈ سیکیورٹی کے بحران اور فصلوں کی تباہی کا سبب بنے گا۔انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ مسائل بھی بڑھ رہے ہیں، تاہم اگر مؤثر حکمتِ عملی اپنائی گئی تو مستقبل میں ان چیلنجز سے نمٹنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ دنیا کے 40 فیصد کاربن اخراج صرف دو ممالک کرتے ہیں، جبکہ مجموعی طور پر 10 ممالک دنیا کے 75 فیصد سے زائد کاربن اخراج کے ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ یہی دس ممالک، جو سب سے زیادہ آلودگی پھیلا رہے ہیں، دنیا کے 85 فیصد “گرین فنانسنگ فنڈ” کے بھی حصول کنندہ ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ترقی پذیر ممالک عالمی کاربن اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ رکھتے ہیں، مگر اس کے باوجود سب سے زیادہ متاثر انہی ممالک کو ہونا پڑتا ہے، یہ صورتحال عالمی ماحولیاتی انصاف پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی انصاف تب ممکن ہوگا جب کم اخراج والے ممالک کو گرین فنانسنگ فراہم کی جائے اور آلودگی پھیلانے والے ممالک کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔




