عدالت ریاست کی جانب سے اختیار کا مسلسل غلط استعمال دیکھ رہی ہے،جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد(سی این پی) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی گرفتاری سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت ریاست کی جانب سے اختیار کا مسلسل غلط استعمال دیکھ رہی ہے،ہر ریاستی ادارے کو اب پرو ایکٹو رول ادا کرنا چاہئے،وفاق کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لئے مہلت کی استدعا پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ سماعت پر عدالتی فیصلہ دوبارہ پڑھ کر آئیں ۔ منگل کو سماعت کے دوران سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری،پٹیشنر ایمان مزاری ، فواد چوہدری سمیت دیگر وکلائ جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ عدالت میں پیش ہوئے ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل کے لئے وقت دیا جائے،فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ رات کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہوئی جب ولید اقبال کے گھر پر گئے،اس عدالت کے احکامات پنجاب کی اتھارٹیز کو بھی بھجوائے گئے ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو بھجوایا گیا ہے،علی وزیر کئی ماہ سے قید میں ہیں، یہ وفاق، صوبائی حکومتوں اور پارلیمنٹ کا کام ہے،پہلے یہ سارے کام نہیں کرتے اور پھر اپوزیشن میں آتے ہیں تو کیس عدالت لے آتے ہیں ، اس طرح کی باتوں سے جمہوریت غیر فعال ہو جاتی ہے ، تمام ادارے کام کریں تو ایسی پٹیشنز عدالتوں میں نہ آئیں ، سیاسی لڑائیوں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے حلقہ کے عوام کو جوابدہ ہیں،اگر سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی تو عدالت کیا کرے ؟ ، یہ حکومت کا کام ہے، یہ بھی سوشل میڈیا پر طعنے ہی دیتے ہیں،ماضی میں جو کچھ ہوا، جبری طور پر گمشدہ ہونے والے آج تک بازیاب کیوں نہیں ہوئے؟، عدالت فیصلہ دیتی ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا،سب نے مل کر اپنا اپنا آئینی کردار ادا کرنا ہے،اب دیکھیں کہ شیریں مزاری کو اس عدالت کے دائرہ اختیار سے غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا،یہ کورٹ یہی ججمنٹ دے سکتی ہے کہ ان کو غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا،پہلے حکومتی عہدیدار بھی کام کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر طعنے دیتے رہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے،شیریں مزاری واحد رکن قومی اسمبلی نہیں جن کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہے،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادجہانگیر جدون نے کہاکہ گذشتہ حکومت بیس بیس کلو ہیروئن ڈال کر کیس بناتی رہی ہے ،ہم عدالتی احکامات پر عملدرآمد کررہے ہیں،ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ جس دن یہ کیس کیا اس کے بعد مجھے دھمکیاں دی جارہی ہیں ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو کون دھمکیاں دے رہاہے ؟ جس پرایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں کسی کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتی ، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ پسے ہوئے طبقوں کے کیسز عدالت لاتی ہیں،بلوچ سٹوڈنٹس کی آواز سننے کا کوئی فورم نہیں، عدالت نے آرڈر دیا جسے فیڈرل گورنمنٹ نے چیلنج کر دیا،جس کے حق میں فیصلہ آ جائے دوسرے اس پر برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، پولیٹیکل لیڈرشپ کی کورٹ عزت کرتی ہے مگر ان کا کام صرف بیانات دینا اور تقریریں کرنا نہیں ہے،لوگ کہتے تھے آئین کیا ہے؟ کاغذ کا پرزہ ہے، یہی بنا دیا ہے، پارلیمنٹیرینز کا احترام اس لیے ہے کہ وہ حلقے کے عوام کی آواز ہیں،یہ کورٹ ریاست کی جانب سے اختیار کا مسلسل غلط استعمال دیکھ رہی ہے،ہر ریاستی ادارے کو اب پرو ایکٹو رول ادا کرنا چاہئے،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہاکہ یہ کہتے ہیں کہ پورا ملک بلاک کر دیں گے، حکومت کو نہیں چلنے دیتے،ایک بندہ آئی ایم ایف سے ٹاک کرنے گیا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں،حکومت بھی اپوزیشن کے تعاون سے چلتی ہے، یہ آئیں اور پارلیمنٹ میں بیٹھیں، شیریں مزاری کے خلاف کیس بزدار حکومت میں بنایا گیا تھا،شیریں مزاری کو ان کا فون واپس کر دیا گیا ہے،فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ پورے پاکستان میں انتقامی کارروائی جاری ہے،اگر شیریں مزاری کی کسٹڈی کی ضرورت ہو تو عدالت کی اجازت لی جائے،چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد ایسی کارروائی توہین عدالت ہو گی،اس کورٹ نے اس آرڈر میں بہت ساری باتیں لکھی ہیں، یہ فیڈرل گورنمنٹ کے لئے ٹیسٹ کیس ہے ، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ آپ اس آرڈر کوجا کر دوبارہ غور سے پڑھیں،ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ ہمیں اس حوالے سے دو ہفتوں کا وقت دیا جائے، فیصل چوہدری نے استفسار کیاکہ دو ہفتے؟، ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ ہم کورٹ سے استدعا کر رہے ہیں، آپ کورٹ کو ڈکٹیٹ نہ کریں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمیں ایک ہفتے کا وقت دے دیا جائے،عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 30 مئی تک ملتوی کر دی۔