سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات کے شواہد اور ریکارڈ سربمہر عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہائی پروفائل مقدمات میں حکومتی مداخلت پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں ڈی جی ایف آئی اے، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر نیب عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ہائی پروفائل مقدمات کی نقول سربمہرکرکے ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائیں، یہ اس لیے کہ اگر اداروں سے ریکارڈ غائب ہوتو سپریم کورٹ سے مل جائے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومت کی مرضی کہ ایک شخص کوباہرجانے دیں یا نہیں، 2018 کے حکم کے بعد حکومت نے اس شخص کو باہرجانے دیا، نیب نے کبھی پوچھا کہ کسی کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا؟ اربوں روپے کی کرپشن کا معاملہ ہے،عوام پرظلم نہ کریں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کیلئے کون کہتا ہے،کبھی کسی سے پوچھا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خط آتا ہے کہ متعلقہ شخص سے تفتیش جاری ہے اس لیے نام ای سی میں ڈال دیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تفتیش ہورہی ہوتو متعلقہ اداروں سے پوچھنا چاہیے کہ نام نکالنے پر اعتراض تو نہیں، حکومت کوکرپشن کیسزمیں متعلقہ اداروں سے مشاورت کرنی چاہیے۔
عدالت نے سوال کیا کہ اتنی جلدی کیا تھی حکومت کو کہ 444 نام ای سی ایل سے نکال دیے؟ کسی وزیر کا نام ای سی ایل میں تھا؟ عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خواجہ سعد رفیق کا نام ای سی ایل میں تھا جونکال دیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ ایک شخص جس کا نام ای سی ایل میں ہے وہ وزیربن جاتا ہے توکیا ہوگا، آپ ہمیں بتارہے ہیں کہ معاملہ آزادانہ نقل وحرکت کا ہے، سب کمیٹی کے بعد کابینہ کی میٹنگ کب ہوئی ہے؟ ہم چاہتے ہیں قانون پرعملدرآمد کرکے سب سے یکساں انصاف ہو، ای سی ایل رولزمیں ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیوں کیا گیا؟ ماضی سے ترمیم کے اطلاق کا مقصد مخصوص افراد کیلئے نہیں تھا، ترمیم کرنے والوں کے رشتے داروں، دوستوں کو فائدہ ہورہا ہوتو کیا ایسی ترمیم ہونی چاہیے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چیئرمین نیب کی ہدایت پر نام ای سی ایل میں شامل کیے جاتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے نیب سوچ سمجھ کرہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے، کرپشن سنگین جرم ہے اور نیب کا ہرکیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے، نیب ہرملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا۔
جسٹس منیب نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق سعد رفیق نے ای سی ایل رولزکی منظوری دی ہے، کیا وزرا کو خود معاملے سے الگ نہیں ہونا چاہیے تھا؟ ذاتی مفاد کیلئے کوئی کیسے سرکاری فیصلے کرسکتا ہے؟ کیا وزرا کیلئے ذاتی کیس سے متعلق کوئی ضابطہ اخلاق ہے؟ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟
عدالت نے کہا کہ مناسب ہوگا اگر کابینہ ہی ایسی بنے جس کا نام ای سی ایل پرنہ ہو، نام نہیں لیتے لیکن ایک وزیرجن کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا وہ اہم معاشی امورسرانجام دے رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ کسی کو سزا دینے کیلئے یہ کارروائی نہیں کررہے، نظام انصاف کی بہتری کیلئے کارروائی کررہے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ حکومت میں بھی نیب قانون کو نہیں بدلا، نیب قوانین میں جو تبدیلیاں ہورہی ہیں موقع پر اس کا جائزہ لیں گے، نیب کی ایک اہمیت ہے جس کو بالکل ختم نہیں ہونا چاہیے۔
عدالت نے ایف آئی اے اور نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا اور تمام شواہد، ریکارڈ کی سافٹ کاپی عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی۔
عدالت نے ای سی ایل ترمیم کو قانونی دائرے میں لانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کرلیں، ایگزیکٹو اختیارات میں فی الحال مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔