سندھ ہائیکورٹ نے چشتیاں سے بازیاب کرائی گئی دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل کرانے کا حکم دیتے ہوئے لڑکی کو شیلٹر ہوم بھیجنے کی ہدایت کر دی۔
دعا زہرہ اور اس کے شوہر ظہیر کو انتہائی سخت سکیورٹی میں سندھ ہائیکورٹ میں پیش کیا گیا، اس موقع پر دعا زہرہ کے والدین نے بیٹی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تاہم پولیس نے دعا زہرہ کے والدین کو بیٹی سے ملوانے سے انکار کر دیا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات پر دعا زہرہ کو پیش کر دیا گیا ہے، جس پر جسٹس جنید غفار نے استفسار کیا کہ 10 جون کو کیس لگا ہوا ہے، آپ آج کیوں آئے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالتی حکم تھا جیسے ہی دعا بازیاب ہو پیش کیا جائے جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے بھی 10 جون کو دعا کو طلب کیا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ لڑکی اپنی مرضی سے صوبہ چھوڑ کر گئی اور اس نے پنجاب جا کر شادی کی۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ لاہور میں کیا کیس ہے؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ میں لڑکے کے والدین نے ہراساں کرنے کی درخواست دائر کی ہے، اس صوبے میں کوئی جرم نہیں ہوا، وہاں شادی ہوئی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ بچی اپنی مرضی سے گئی ہے یہاں کوئی جرم نہیں ہوا، پنجاب پولیس نے دعا زہرہ اور ظہیر کو پیش کرنا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ یہاں لڑکی کے اغوا کا کیس نہیں ہے کیا؟
لڑکی کے والد مہدی کاظمی کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ لڑکی کے اغواکا مقدمہ درج ہے، لڑکی کی عمر کم ہے اس لیے اغوا کا مقدمہ درج کرایا ہوا ہے۔
مہدی کاظمی کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ دعا کے برتھ سرٹیفیکیٹ میں تاریخ پیدائش27 اپریل2008 درج ہے، اس وقت دعا کی عمر 14 سال اور کچھ دن ہے۔
جسٹس جنید غفار نے ریمارکس دیے کہ ابھی لڑکی بیان دے گی تو اغوا کا مقدمہ ختم ہو جائے گا۔
دعا زہرہ نے عدالت میں بتایا کہ میرا نام دعا زہرہ اور والد کا نام مہدی کاظمی ہے، جس پر عدالت نے پوچھا کہ آپ کی عمر کیا ہے؟ دعا نے بتایا کہ عمر 18 سال ہے اور اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ رہتی ہوں۔
سندھ ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ آپ کے والد نے کہا ہے کہ ظہیر نے آپ کو زبردستی اغوا کیا؟ جس پر دعا نے بتایا کہ نہیں مجھے اغوا نہیں کیا گیا۔
عدالت نے پوچھا کہ آپ کو کہاں سے بازیاب کرایا گیا؟ جس پر لڑکی نے بتایا کہ مجھے چشتیاں سے بازیاب کرایا گیا ہے، میں ظہیر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔
جسٹس جنید غفار نے ریمارکس دیے کہ بچی ہمارے سامنے کھڑی ہے وہ خود کہہ رہی ہے کہ اغوا نہیں کیاگیا۔
انہوں نے کہا کہ والدین کھڑے ہیں اور پریشان ہیں مگر ہم نے قانون کو دیکھنا ہے، اگر لڑکی ملنا نہیں چاہتی تو ہم کیسے زبردستی کر سکتےہیں۔
سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے لیے 2 روز میں طبی ٹیسٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 8 جون تک ملتوی کر دی اور لڑکی کو شیلٹر ہوم بھیجنے کی ہدایت کر دی۔
قبل ازیں پولیس حکام کا کہنا تھا کہ دعا زہرہ کو لاہور سے کراچی منتقل کر کے ویمن پولیس کے حوالے کیا گیا جبکہ دعا زہرہ کے شوہر ظہیر کو اے وی سی سی کی حفاظتی تحویل میں دیا گیا۔
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ دعا زہرہ کوپیش کرکے بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں، عدالت دعا زہرہ کو آج ہی پیش کرنے کی اجازت دے، جس پر عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے کیس آج ہی سماعت کے لیے منظور کر لیا۔
یاد رہے کہ اپریل میں کراچی سے لاپتہ ہونے والی دعا زہرہ کو تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد گزشتہ روز چشتیاں سے بازیاب کروایا گیا تھا، دعا زہرہ اور اس کے شوہر ظہیر کو لاہور کی سی آئی اے پولیس نے ایک وکیل کے گھر سے حراست میں لیا تھا۔
سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرہ کو بازیاب کروا کے 10 جون کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔