اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کے دوران وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سندھ کا 33 ارب خسارے کا 1714ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا گیا، گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں تینتیس اور اس سے اوپر والوں کیلئے تیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ پنشن 5 فیصد بڑھادی گئی، مجموعی خسارہ 33 ارب رکھا گیا ہے، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
بجٹ تقریر کے دوران مراد علی شاہ کی زبان پھسل گئی اور سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کو وزیراعظم کہہ دیا۔وزیراعلیٰ سندھ کی بجٹ تقریر شروع ہوتے ہی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے شور شرابہ اور نعرے بازی شروع کردی جس پر وزیراعلی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسی شور شرابے کے دوران بجٹ تقریر جاری رکھی۔اپوزیشن کے تقریرکے دوران وزیراعلیٰ کا گھیراؤ کرلیا۔ اپوزیشن ارکان نے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے ساتھ ہی انہوں نے بجٹ نامنظور کے نعرے لگائے۔
اسمبلی فلور پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لیے صوبائی حکومت کی مجموعی وصولیوں 1,679,734.8 ملین کے مقابلے میں اخراجات 1,713,583.1 ملین ہوں گے جو 33 ارب 84 کروڑ 80 لاکھ روپے کے خسارے کو ظاہر کرتا ہے۔ مجموعی طور پر محصولات کی وصولیاں 1,679,734.8 ملین ہوں گی جس میں 1.055 ارب روپے وفاقی منتقلی، 374.5 ارب روپے کی صوبائی وصولیاں (167.5 ارب صوبائی ٹیکس وصولیاں جن میں سروسز پر جی ایس ٹی، 180 ارب سروسز پر صوبائی سیلز ٹیکس اور 27,000 ملین صوبائی نان ٹیکس وصولی)، 51,132.8 ملین روپے موجودہ کیپٹل وصولی، 51,132.8 ملین روپے کی کرنٹ کیپٹل وصولی، 105,567.5 ملین روپے دیگر ٹرانسفرز جیسے کہ غیر ملکی پراجیکٹ امداد، وفاقی گرانٹس اور غیر ملکی گرانٹس اور 20,000 ملین روپے کیش بیلنس اور صوبے کے پبلک اکاؤنٹس شامل ہیں۔ صوبائی ٹیکس جمع کرنے والے ادارے سندھ ریونیو بورڈ 180 ارب روپے، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن 1.20 ارب روپے اور بورڈ آف ریونیو 30 ارب روپے وصولی کے اہداف حاصل کریں گے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لیے موجودہ ریونیو اخراجات 1,199,445.4 ملین روپے ہوں گے جس میں موجودہ سرمائے کے اخراجات 54.48 ارب روپے، ترقیاتی پورٹ فولیو 459.65 ارب روپے ہوں گے جس میں 332.165 ارب روپے صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی)، 30 ارب روپے ضلع اے ڈی پی، اور 91.467 ارب فارن اسسٹنس پروجیکٹ (FAP) اور 6.02 ارب دیگر وفاقی گرانٹس شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق صوبائی حکومت نے دوران مالی سال کے 11 ماہ (جولائی تا مئی) میں 732 ارب روپے کے نتیجے میں 716 ارب روپے وصول کیے ہیں جو 16 ارب روپے کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ ان کی حکومت نے مذکورہ مدت کے دوران 19.7 ارب روپے کے نتیجے میں 45 ارب روپے براہ راست منتقلی اور OZT میں 18.9 ارب روپے وصول کیے۔
صوبائی حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام 23-2022 کے لیے 332.165 ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ یہ رواں سال کے دوران 222.5 ارب روپے ہے۔ ضلعی اے ڈی پی کا حجم 30 ارب روپے رکھا گیا ہے جیسا کہ رواں مالی سال کے دوران کیا گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ 4158 اسکیمیں جن میں 2506 جاری اور 1652 نئی اسکیمیں شامل ہیں، کے لیے 332.165 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جاری 2506 اسکیموں کے لیے 76 فیصد فنڈز یعنی 253.146 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور 1652 نئی اسکیموں کے لیے 24 فیصد فنڈز یعنی 79.019 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ مالی سال 23-2022 میں 1510 اسکیمیں مکمل کی جائیں گی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے 26.850 ارب روپے کے غریبوں کے حامی، سماجی تحفظ اور معاشی استحکام کے پیکیج کا اعلان کیا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ ایڈہاک ریلیف الاؤنسز 2016، 2017، 2018، 2019 اور 2021 کو وفاقی حکومت کے ملازمین کے لیے قابل قبول شرح پر ضم کیا جا رہا ہے اور بنیادی تنخواہ اسکیل 2022 پر نظر ثانی کی جا رہی ہے جبکہ سندھ حکومت کے سرکاری ملازمین کے لیے وفاقی حکومت کی طرز پر بنائے گئے پیٹرن کو ہی متعارف کروایا جا رہا ہے۔
انہوں نے یکم جولائی 2022 سے سرکاری ملازمین کے بنیادی تنخواہوں میں 15 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس کا بھی اعلان کیا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ گریڈ 1 سے 16 کے سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں 33 فیصد اور گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے سرکاری ملازمین کے لیے 30 فیصد ایڈہاک ادا کیا جائے گا جبکہ ریلیف الاؤنسز 2013، 2015، 2016، 2017، 2018، 2019، 2020 اور 2021 یکم جولائی 2022 سے ختم کیا جا رہا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت کے پنشنرز کو پہلے ہی فروری 2022 تک وفاقی حکومت کے پنشنرز کے نتیجے میں 22.5 فیصد اضافہ مل رہا ہے اس لیے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت یکم جولائی 2022 سے پنشنرز کو خالص پنشن سے 5 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔
مراد علی شاہ کے مطابق مارچ 2022 میں وفاقی حکومت کی جانب سے خالص پنشن میں 10 فیصد اضافے اور یکم جولائی 2022 سے 15 فیصد اضافے کے اعلان کے بعد وفاقی حکومت کے پنشنرز کے نتیجے میں خالص پنشن پر حکومت سندھ کے پنشنرز کو اب بھی 12.5 فیصد زیادہ ملیں گے۔ اگر دیگر صوبوں نے ملازمین کی تنخواہ زیادہ بڑھائی تو سندھ بھی اضافہ کریگا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے پولیس کانسٹیبل کو گریڈ 5 سے اپ گریڈ کر کے گریڈ 7 میں کرنے کا اعلان کیا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے ٹول مینوفیکچرنگ سروسز کو ایس ایس ٹی سے مستثنیٰ کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ریکروٹنگ ایجنٹس‘ کے لیے 5 فیصد کم کردہ SST کی شرح اگلے دو سال یعنی 30 جون، 2024 تک جاری رہے گی۔ یہ ریلیف بیرون ملک کام کرنے کے خواہشمند پاکستانیوں کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔ کیبل ٹی وی آپریٹرز کی طرف سے فراہم کردہ خدمات پر 10 فیصد کی کمی کی شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا تھا، موجودہ ریلیف کو 30 جون 2024 کو ختم ہونے والی دو سال کی مزید مدت کے لیے بڑھانے کی تجویز ہے۔
کیبل ٹی وی آپریٹرز کو استثنیٰ دینے کی تجویز ہے، بشمول دیہی علاقوں کے کیبل ٹی وی آپریٹرز کو پیمرا لائسنس کے تحت ’R‘ زمرہ کے ایس ایس ٹی سے 30 جون 2023 تک مستثنیٰ رکھا جائے گا۔
ہوم شیفز سے فوڈ ڈیلیوری چینلز (جیسے فوڈ پانڈا، چیتے لاجسٹکس وغیرہ) کے ذریعے موصول ہونے والے کمیشن چارجز پر ایس ایس ٹی کی شرح 30 جون 2024 کو ختم ہونے والے دو سالوں کے لیے 13 فیصد سے کم کر کے 8 فیصد کر دی گئی ہے۔
دیگر تمام معاملات میں کمیشن ایجنٹس کے ذریعہ فراہم کردہ یا فراہم کی جانے والی خدمات SST کے لیے 13 فیصد لاگو رہیں گی۔ ہیلتھ انشورنس خدمات پر موجودہ چھوٹ 30 جون 2023 تک ایک سال کی مدت کے لیے مزید جاری رہے گی۔
سندھ میں ترقیاتی منصوبوں میں سہولت فراہم کرنے والی جرمن ترقیاتی ایجنسی GIZ کو بھی عوام کو بالواسطہ ریلیف کے طور پر خدمات پر سیلز ٹیکس میں مشروط چھوٹ دی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ان کی حکومت نے تعلیم کے شعبے کو اپنی اولین ترجیح پر رکھا ہے، اس کے لیے 326.80 ارب مختص کیے گئے ہیں جو بجٹ کے کل اخراجات کا 25 فیصد سے زیادہ بنتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحت کے شعبے کو بھی اربوں روپے کی بجٹ میں مختص کر کے اولین ترجیح دی گئی ہے۔ 230.30 ارب جو بجٹ کے کل اخراجات کا 19 فیصد سے زیادہ بنتا ہے۔
سندھ حکومت نے کم از کم سات اضلاع کورنگی، کراچی ویسٹ، کیماڑی، ملیر، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہیار اور سجاول میں ایک ایک مکمل یونیورسٹی یا ایک تسلیم شدہ پبلک یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔
کورنگی میں ٹیکنالوجی اینڈ اسکل، ووکیشنل/ انڈسٹریل ڈویلپمنٹ یونیورسٹی ہوگی، جبکہ کراچی ویسٹ اور کیماڑی میں اس یونیورسٹی کے ذیلی کیمپسز ہوں گے۔
ملیر میں این ای ڈی یونیورسٹی کا سب کیمپس ہوگا، اسی طرح ٹنڈو محمدخان اور ٹنڈو اللہیار کو آئی بی اے کراچی یا سکھر آئی بی اے کے سب کیمپسز دیے جائیں گے اور سجاول میں مہران یونیورسٹی کا سب کیمپس ہوگا۔
مالی سال 23-2022 کے لیے صحت کے بجٹ کا کل تخمینہ 206.98 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ بنیادی، ثانوی اور ٹریٹری ہیلتھ، احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ دیگر متعدی اور غیر متعدی امراض کا احاطہ کرتا ہے۔ اس سال صحت کے شعبے کا بجٹ مالی سال 22-2021 کے دوران 181.22 ارب سے 14 فیصد زیادہ ہے۔
آئندہ مالی سال 23-2022 کے لیے محکمہ داخلہ بشمول سندھ پولیس اور جیلوں کے لیے کل مختص رقم کو رواں مالی سال کے دوران 119.98 ارب سے 124.873 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے۔
آئندہ مالی سال 23-2022 کے لیے آبپاشی کے بجٹ کو 21.231 ارب روپے سے بڑھا کر 24.091 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اے ڈی پی 23-2022 میں محکمہ زراعت اور آبپاشی کے لیے مختص رقم 36.2 ارب روپے ہے۔
واٹر اینڈ سیوریج سیکٹر کو مالی سال 23-2022 میں 224.675 ارب دیے گئے ہیں، شہر کی دو بڑی اسکیموں کو آنے والے مالی سال کے دوران عمل میں لایا جائے گا۔
ان میں 9.423 ارب روپے سے گجر، محمود آباد اور اورنگی نالہ کے متاثرین کی دوبارہ آباد کاری اور 511.724 ارب روپے کی لاگت سے گریٹر کراچی بلک واٹر اسکیم K-IV اضافے کا کام شامل ہیں۔
سندھ حکومت نے اس شعبے کے بجٹ میں اگلے مالی سال 23-2022 کے لیے 8 ارب سے بڑھا کر 12 ارب کردیا ہے۔حکومت سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے آپریشنز کو اگلے مالی سال میں دیگر اضلاع تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے جن میں حیدرآباد، قاسم آباد، کوٹری، سکھر سٹی اور روہڑی شامل ہیں۔
خریداری کا عمل پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے اور اس سال کے آخر میں آپریشن شروع ہو جائے گا۔ SSWMB کی توسیعی کارروائیوں کے پیشِ نظر کام کیا جائے گا۔
آئندہ مالی سال 23-2022 کے بجٹ میں محکمہ سماجی تحفظ کے لیے 15.435 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بزرگ شہریوں، یتیموں اور غریبوں کی بہبود اور اسے بہتر بنانے کے لیے اگلے مالی سال 23-2022 سے کئی سماجی پروگرام شروع کیے جا رہے ہیں اور انہیں مالی اعانت فراہم کی جا رہی ہے۔