اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتا شہری کو بدھ کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے حکام عدالت کے سامنے پیش ہو کر ریاست کی ناکامی کی وضاحت کریں گے۔
اسلام آباد سے لاپتا شہری حسیب حمزہ کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی، جہاں عدالتی حکم پر آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
دوران سماعت آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ لاپتا شہری حسیب حمزہ کی گمشدگی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہوکر کہا کہ آئی جی صاحب، یہ ناقابل برداشت ہے، لاپتا افراد سے متعلق پہلے ایک فیصلہ موجود ہے جس میں یہ واضح قرار دیا گیا ہے کہ شہری کے لاپتا ہونے پر آئی جی اور متعلقہ افسران ذمہ دار ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ عدالت اب اس فیصلے کے مطابق ہی کارروائی کرے گی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد پولیس کو کل 10 بجے تک لاپتا شہری کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہر ایک کو بلا کر اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایم آئی، آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت سب پیش ہو کر ریاست کی ناکامی کی وضاحت کریں گے، شہری کی عدم بازیابی پر کل ایم آئی، آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈرز پیش ہوں جبکہ اسپیشل برانچ اور آئی بی کے سیکٹر کمانڈرز بھی پیش ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ 23 اگست سے شہری لاپتا ہے مگر مقدمہ 12 ستمبر کو درج ہوتا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ دنیا کی بہترین ایجنسیوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں کہ لاپتا شہری کو پیش نہ کر سکیں، اگر آپ چاہتے ہیں تو وقت دس بجے سے ساڑھے گیارہ کر دیتے ہیں اس سے زیادہ نہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب، یہ عدالت آپ پر اعتماد کر رہی ہے، وزیر اعظم پاکستان بھی لاپتا افراد کے کیسز میں ہی اس عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے لاپتا شہری کو کل ساڑھے گیارہ بجے تک بازیاب کر کے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے شہری کی بازیابی کے لیے زیادہ مہلت دینے کی آئی جی اسلام آباد کی استدعا مسترد کردی۔عدالت نے بدھ کو چیف کمشنر کو بھی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔