وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مملکت خداد داد پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے جسے ہمیں دستور سے ہٹتے ہوئے گمراہ کن نظریات، انتشاراور فساد سے بچانا ہوگا۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں رحمتہ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے یومِ ولادت کا جشن بھرپور مذہبی جوش و خروش اور عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔
اسی مناسبت سے لاہور میں سیرت النبی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم آج اس ہستی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جو پوری انسانیت کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ کو اس معاشرے میں صادق و امین بنا کر بھیجا گیا جو جہالت کے اندھیروں میں غرق تھا، آپ ﷺ اس بد ترین انسانی معاشرے میں بھی صادق و امین معروف تھے اور آپ کو اس کے لیے کسی کی گواہی کی ضرورت نہ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ ﷺ کی تشریف آوری سے دکھیوں کو چین ملا، بے سہاروں کو سہارا ملا، یتیموں اور بیوائوں کو پناہ ملی، غریبوں کو خودداری، غلاموں کو عزت اور امیروں کو سخا نصیب ہوئی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ کی بعثت نے تہذیب کو وقار، ثقافت کو تقدس، علم کو وسعت، فکر کو ندرت، عمل کو طہارت، نفرتوں اور عداوتوں میں سسکتی انسانیت کو اخوت ومحبت کے تحفے اور انسان کو اپنے خالق تک رسائی کی معرفت نصیب فرمائی۔
شہباز شریف نے کہا کہ حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت مقدسہ تمام انبیا و رسل کی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے اپنی ارفع اور پاکیزہ تعلیمات کے ذریعے زندگی کا فطری تصور پیش کیا، اللہ تعالی کی وحدانیت اور انسانوں کی برابری کی تعلیم دی، بڑائی کی بنیاد اچھے اعمال اور اعلی اخلاق پر رکھی اور ظلم و ناانصافی کی ہر شکل کو ممنوع قراردیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آپ ﷺ کے اثر انگیز ارشادات اور اسو حسنہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدیوں کے دشمن بھائی بھائی بن گئے اور غریبوں اور کمزورں کے سر پر لٹکتی ظلم کی تلوار ٹوٹ گی۔
شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ ﷺ کی تعلیمات کی بدولت جہالت کی جگہ علم وعرفان نے لے لی اور افلاس ومحکومی کے بدلے معاشرے کو غنا اور آزادی نصیب ہوئی۔
انہوں نے کہا آپ ﷺ نے ریاست مدینہ کی بنیاد فلاحی اصولوں پر رکھی جس میں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا، غریبوں، ناداروں کی داد رسی کی جاتی تھی اور آپ کے اسی کردار کو دیکھ کر غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا اور اسلام چار دانگ عالم پھیل گیا۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمیں ریاست مدینہ کے اصولوں کی روشنی میں اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے، کیا یہ بات ریاست مدینہ کے پاک نام کی توہین کے مترادف نہیں کہ ہم نام تو ریاست مدینہ کا لیں اور ہمارا کردار، ہمارا طرز عمل اس کے تقاضوں کے منافی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ علم جس کو مسلمانوں کی میراث قرار دیا گیا تھا ، ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ اس میں آج ہم کہاں ہیں، ریاستی نظم و نسق میں ہم کہاں ہیں، اخلاقی اور بد عنوانی کے لحاظ سے ہم کہاں ہیں، عوام کی خدمت، عدل و انصاف، ایمانداری اور صداقت میں ہم کہاں کھڑے ہیں، پوری قوم ہم سے آج یہ چبھتے ہوئے سوالات پوچھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مثال دیتے ہیں ریاست مدینہ کی اور عام عوام تو دور، ہم جج اور عدالتوں کو بھی جواب دینے پر تیار نہ ہوں، کوئی حساب مانگے تو ہم رکیک حملے کریں، کیا ہمارے عدل و انصاف کے تقاضے وہی ہیں جو ریاست مدینہ میں تھے، ریاست مدینہ میں سب قانون کی نظر میں برابر تھے، کیا ہمارے معاشرے میں سب نظام عدل کے سامنے برابر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بہتان جھوٹ اور الزامات لگا کر مخالفین کو نا حق قید میں ڈالنا، قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا، کیا یہ طرز عمل کسی ریاست مدینہ کے ماننے والے کا ہو سکتا ہے، آج مخالفین کے لیے ایسے ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں کہ عقل ورطہ حیرت میں رہ جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج سیلاب کے باعث لاکھوں لوگ امداد کے منتظر ہیں لیکن کیا ہمارا جذبہ انصار مدینہ والا ہے ، آج بھی بعض لوگوں کو سیلاب متاثرین سے زیادہ اپنی سیاست پیاری ہے، میرا گھر تو جائز قرار دے دیا جائے اور غریبوں کے گھر ڈھادیے جائیں، کیا یہ طرز عمل ریاست مدینہ میں ممکن تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ کیا توشہ خانہ کو ذاتی کمائی کا ذریعہ بنانا، دستور، قانون کو نہ ماننے کا تصور ریاست مدینہ میں تھا، ریاست مدینہ میں لوگوں کے معاشی بوجھ کم کیے گئے، یہ ہی وجہ تھی کہ زکوٰۃ دینے والے تو موجود تھے لیکن لینے والا ملتا نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ملک ریاست مدینہ تبھی بن سکتا ہے جب ہم سیرت طیبہ اور اصحاب پاک کے نقش قدم پر چلیں، ہم کب تک روایتی تقریریں کرتے رہیں گے ، یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا، اسے دستور سے ہٹتے ہوئے گمراہ کن نظریات، انتشاراور فساد سے بچانا ہوگا، ایمان اتحاد اور تنظیم کے سبق پر واپس آنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں وہ فلاحی نظام تشکیل دیں جو ریاست مدینہ کے ثمرات عوام میں تقسیم کرے ، ہم طرز حکمرانی ٹھیک کرکے عوام کے لیے معاشی آسودگی لے کر آئیں، انصاف کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہو، لوگوں کو سستی تعلیم اور مفت علاج فراہم کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے لیکن بروز قیامت کیا منہ دکھائیں گے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کے لیے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہے اور اس کا جواب تلاش کرنا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ قیامت تک انسانیت کے ہر دکھ کا مداوا رحمتِ دوجہاں ﷺ کی کامل تابعداری میں پنہاں ہے، اللہ تعالی ہمیں اپنے حبیب مکرم ﷺ کی کامل اتباع و اطاعت نصیب فرمائے۔