وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز ایف آئی اے منی لانڈرنگ کیس میں بری ہوگئے۔شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف ایف آئی اے منی لانڈرنگ کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔
اسپیشل سینٹرل کورٹ نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کا فیصلہ سنایا۔ایف آئی اے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ کی جانب سے بریت کی درخواست کی مخالفت کی گئی۔
ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ حمزہ شہباز پر 16 ارب کی منی لانڈرنگ کا الزام عائد ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ کیس آگے چلے، ملزمان پر فرد جرم عائد کی جائے، ان کا ٹرائل مکمل کیا جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے چالان میں ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام نظر آئی، درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے شہبازشریف اور حمزہ شہباز کو بری کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز اسپیشل سینٹرل کورٹ میں شہبازشریف اور حمزہ شہباز سمیت 19ملزمان کیخلاف شوگر ملز کے ذریعے 16 ارب روپے منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستوں پر سماعت کے دوران دلائل مکمل ہونے کے بعد کارروائی آج تک ملتوی کردی گئی تھی۔
پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے موقف اختیار کیا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں جس سے ثابت ہو کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس میں کسی بے نامی دارکی جانب سے براہ راست پیسے جمع ہوئے یا نکلوائے گئے ہوں۔
واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے نومبر 2020 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 419، 420، 468، 471، 34 اور 109 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، سلیمان شہباز برطانیہ میں ہیں اور انہیں مفرور قرار دے دیا گیا تھا، 14 دیگر افراد کو بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا۔
شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔
ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کردیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے جمع کروائے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔
چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپڑاسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔