دنیا بھر میں آج برداشت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس سال اس دن کا موضوع ہے تاریخ اہمیت اور اقوال اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق یہ دن منانے کا مقصد معاشرے میں برداشت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تاکہ دنیا بھر میں مختلف برادریوں کی بقا یقینی بنائی جاسکے۔۔ پہلی بار یہ دن 1996ء میں منایا گیا تھا۔اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں کو مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر عدم رواداری کے نقصانات سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ موجودہ زمانے میں رواداری صرف اخلاقی فریضہ ہی نہیں، سیاسی اور قانونی ضرورت بھی ہے۔ رواداری ایک ایساجذبہ ہے، جس میں ہم نہ کسی سے محبت کرتے ہیں نہ نفرت، بلکہ ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں رواداری کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو برداشت کریں، جنہیں آپ جسمانی، لسانی، مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر ناپسند کرتے ہیں۔ رواداری واحد ایسی خوبی ہے جو نہ صرف مختلف قوموں اور جماعتوں کو بین الاقوامی سطح پر انسانی تہذیب کی تعمیر نو اور بہتری کے ضمن میں اکٹھے مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے بلکہ ایک ہی ملک میں مختلف نظریات رکھنے والی جماعتوں اور لوگوں کو متحد کر کے قومی مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پر مختلف شخص اس دنیا میں اپنے نظریات و عقائد پر صرف اسی صورت آزادی سے عمل پیرا ہو سکتا ہے، جب وہ دوسروں کو ان کے نظریات و عقائد پر عمل کرنے کی آزادی دے۔ عوامی اور قومی معاملات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاملات میںرواداری کی جتنی ضروت آج ہے، شاید اس سے پہلے کبھی نہ رہی ہو۔اور شاید گزرتے وقت کے ساتھ اس کی ضرورت آج سے زیادہ محسوس کی جائے۔
اقوامِ متحدہ کی کوششوں کے باوجود،بدقسمتی سے، ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے سے برداشت ختم ہو رہی ہے ۔گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگوں کے رویوں میں عدم برداشت کا بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ اس کے اسباب جھوٹ، ناانصافی، چور بازاری، اقربا پروری، مہنگائی، بے روزگاری اور میرٹ کی خلاف ورزیاں وغیرہ ہیں۔ میڈیا پر نشر ہونے والے پر تشدد پروگرام اورفلمیں بڑوں اور بچوں پرمنفی اثرات مرتب کررہی ہیں۔ معاشرے میں اس کے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں اور لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں۔
پاکستان میں عوام و خواص کی اکثریت عدم برداشت کی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ کئی لوگوں سے مذاق تک برداشت نہیں ہوتا،ہلکی پھلکی باتوں کو بھی ہتک عزت سمجھا جاتا ہے ، لوگ بُری بات تو کیا کسی کی اچھی بات بھی برداشت کرنے کو تیارنہیں۔لوگ معمولی سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ،ہر شخض دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے ۔ بالخصوص گزشتہ چندسال سے قتل و غارت گری، دہشت گردی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔اس کی وجہ کرپشن، بھوک و افلاس،بے روزگاری ،جہالت ،اور قانون کا عدم نفاذ ہے ۔