سپریم کورٹ نے حکومت کی قائم ارشد شریف قتل پراسپیشل جےآئی ٹی مسترد کردی۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کی جس میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے، عدالت چاہتی ہے آزادانہ ٹیم قتل کی تحقیقات کرے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ارشد شریف کی والدہ کا مؤقف بھی سنیں گے۔سماعت کے دوران صحافی حسن ایوب نے روسٹرم پر آ کر بتایا کہ سپریم کورٹ میں ارشد شریف کی والدہ کو لانے کے لیے لفٹ نہیں تھی۔
صحافی حسن ایوب نے کہا کہ پولیس نے ارشد شریف کے اہلخانہ سے درست رویہ نہیں اپنایا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وہیل چیئر کے لیے لفٹ تبدیل کر رہے ہیں، اس پر معذرت خواہ ہوں، پولیس والا معاملہ بھی دیکھ لیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی رپورٹ پڑھ کر سنائی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ارشد شریف کے اہلخانہ کو فراہم کر دی گئی ہے، دفتر خارجہ ارشد شریف قتل کی تحقیقات کے لیے ہر حد تک معاونت کر رہا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ مبینہ شوٹر کینین پولیس کا رکن ہے یا نہیں؟جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کینین پولیس کے 3 اہلکاروں کے انٹرویو رپورٹ میں شامل کیوں نہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا کے حکام سے تحقیقاتی ٹیم نے معلومات حاصل کیں، فائرنگ کرنے والے 3 اہلکاروں سے ٹیم کی ملاقات کرائی گئی، چوتھے اہلکار کے زخمی ہونے کے باعث ملاقات نہیں کرائی گئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامررحمٰن نے کہاکہ کینیا میں متعلقہ وزیر اور سیکریٹری کابینہ سے ملاقات کی کوشش کر رہے ہیں، ہائی کمیشن متعلقہ حکام سے رابطے میں ہے، ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ مبینہ طور پر فائرنگ کرنے والے کون ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فائرنگ کرنے والے کینیا پولیس اہلکار ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رات ایک بجے عدالت کو رپورٹ فراہم کی گئی ہے، ارشد شریف کا بہیمانہ قتل ہوا، ان کے قتل کا وقوعہ کینیا میں ہے، ان سے تعاون لیا جائے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کیس کے کچھ گواہان پاکستان میں بھی ہیں، کیا پولیس سے کوئی عدالت آیا ہے؟ کیا رپورٹ تحریر کرنے والے افسران عدالت میں موجود ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عام رحمٰن نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد عدالت میں موجود ہیں۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں ذمے داروں کا نام لکھا ہے تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں درج کرداروں کو نظر انداز کر دیا گیا، تنبیہہ کر رہا ہوں کہ ایسی رپورٹس عدالت میں پیش نہ کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ افسوسناک واقعے پر آپ سے بہت معذرت خواہ ہیں، اٹارنی جنرل صاحب، آپ والدہ کی پیش کردہ رپورٹ دیکھیں، آپ کو یقین دلاتے ہیں تحقیقاتی ٹیم بغیر دباؤ کے قتل کی تحقیق کرے گی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مسز علوی 2 شہیدوں کی دکھی اور افسردہ ماں ہیں، شکریہ کی ضرورت نہیں، عدالت اپنا فرض ادا کر رہی ہے۔