صدر مملکت عارف علوی نے انکشاف کیا ہےکہ (ر) جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم نے سینیٹ میں عمران خان کی مدد کی اور انہوں نے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کی مدد کی۔اپنے اعزاز میں دیے گئے ایک عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے صدر عارف علوی نے کہا کہ انہوں نے ’’آڈیوز اور ویڈیوز کے کھیل‘ کے حوالے سے نئے آرمی چیف سے بات کی ہے، مجھے حیرت ہے کہ یہ سلسلہ کیوں جاری ہے، کسی بھی اخلاقی لحاظ سے یہ سلسلہ جاری نہیں رہنا چاہیے۔
صدر نے کہا کہ انہوں نے آرمی چیف کے ساتھ مسلح افواج کی ’غیر جانبداریت‘ پر بھی بات کی۔اس موقع پر انہوں نے حاضرین کو ایک مزاحیہ بات سنائی کہ 1990 کی دہائی میں جب وہ جماعت اسلامی کا حصہ تھے اس وقت پارٹی کے امیدواروں کو اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتے وقت اس سوال کا جواب دینا ہوتاتھا کہ کیا وہ شراب پیتے ہیں یا نہیں۔
انہوں نے واقعہ یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایک امیدوار نے اقرار کیا کہ وہ شراب پیتا ہے جب کہ ایک اور امیدوار نے کہا کہ بس دو ہفتے قبل ہی پینا چھوڑ دی ہے۔ صدر علوی نے کہا ’میں نے یہ واقعہ اپنے ان تمام وردی والے دوستوں کو سنایا ہے تاکہ انہیں یہ بتا سکوں کہ اگر آپ نے سیاست چھوڑ دی ہے تو اسے آپ نے کل پرسوں ہی چھوڑا ہے، یہ سن کر سب ہنسنے لگے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سب باتیں آرمی چیف سے شیئر کی ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ اگر فوج نے سیاست چھوڑ دی ہے تو اب وقت آچکا ہے کہ سیاست دان معاملات کو اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ انہوں نے کہا، ’آپ (سیاست دان) ایسے حالات پیدا کر دیں کہ جن میں آپ کو اِن (فوج) کی طرف نہ بھاگنا پڑے۔‘
عارف علوی کا کہنا تھا کہ باجوہ نے عمران کی سینیٹ اور انتخابات میں مدد کی، نئی شروعات کیلئے ماضی کو بھول جائیں اور معاف کردیں، عمران کو پریشان ہونا چاہیے الیکشن اکتوبر میں ہونگے یا نہیں،حکومت اور اپوزیشن کو تجویز دی اپریل یا مئی میں کرا لیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت تھی، ملک میں کسی کو بھی صرف الزام کی بنیاد پر جیل میں ڈالنا بہت ہی آسان، اداروں اور عدلیہ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا، بھارت تقسیم کا شکار ہے ، پاکستانی قوم نے 30سال میں منقسم نہ ہونا سیکھ لیا، بھارت کو بلاول کی جانب سے اچھا جواب دیا گیا۔
ڈاکٹر علوی کی رائے تھی کہ ملک کو مشکل وقت کا سامنا ہے، ہمیں چاہیے کہ ایک نئی شروعات کیلئے ماضی کو بھول جائیں اور لوگوں کو معاف کر دیں، آئیں ایسا ملک بنائیں جس کے ہم مستحق ہیں۔
‘ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اداروں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا، حتیٰ کہ عدلیہ نے بھی نہیں، ملک میں کسی کو بھی جیل میں ڈالنا بہت ہی آسان ہے، اگر کسی مخصوص شخص کو ہدف بنانا ہو تو اس کیخلاف کوئی بھی الزام عائد کرکے متعلقہ قانون نافذ کر دیں تاکہ اسےجیل میں ڈالنا یقینی ہو جائے۔
صدر نے کہا کہ عدالتوں نے آمر کو آئین میں تبدیلی کرنے کی اجازت دینے کے لیے فیصلے سنائے، انہوں نے ریکو ڈک کا حوالہ دیا جس کی وجہ سے پاکستان کو 7 ارب ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہاکہ اگر آپ عدلیہ پر تنقید کریں گے تو اس سے پوری عدلیہ کا وقار کم ہوتا ہے اگر آپ فوج پر تنقید کرتے ہیں تو اس سے پورے ادارے کا وقار مجروح ہوتا ہے اور آپ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے وقار کو نقصان ہو۔
عارف علوی کا کہنا تھا کہ لیکن اس اصول کو اس قدر کھینچ کر ہر صورتحال پر لاگو کر دیا جاتا ہے کہ کوئی ان کیخلاف کچھ کہہ ہی نہیں پاتا۔
ملک میں جاری افراتفری کے حوالے سے صدر علوی نے کہا کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اُن کے مخالفین کودوسرا این آر او چاہیے تھا لیکن جب ان کے مخالفین کہتے تھے کہ انہوں نے اپنے کیسز ختم کرنے کا مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ تاہم ڈاکٹر علوی کا کہنا تھا کہ موجودہ وفاقی حکومت نے اپنے رہنماؤں کے مقدمات کے خاتمے کی کوششیں لازمی کی ہیں۔
آئندہ الیکشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں صدر علوی نے کہا کہ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن کو زبانی تجویز دی ہے کہ بیچ کا معاملہ تلاش کر لیں اور الیکشن اپریل کے آخر یا پھر مئی میں کرا لیں، آئندہ الیکشن کی تاریخ طے نہیں ہے۔
پاکستان میں بڑھتی تقسیم کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم نے افغانستان کی صورتحال سے سبق سیکھ لیا ہے کہ ہمیں منقسم نہیں ہونا چاہیے اور ہمیں یہ سبق سیکھنے میں 30 سال لگے، فی الوقت بھارت کو تقسیم کا سامنا ہے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی جانب سے بھارت کو دیے گئے جواب کے حوالے سے صدر علوی نے کہا کہ وزیر خارجہ نے درست کام کیا ہے، انہوں نے کہا کہ گلوبل آرڈر (دنیا کا نظام) ذاتی مفادات پرمبنی ہے، بلاول صاحب نے اچھا جواب دیا۔