اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کے لیے دائر درخواست میں این ڈی ایم اے پرسخت برہمی کااظہار

اسلام آباد(سی این پی)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کے لیے دائر درخواست میں این ڈی ایم اے پرسخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وزیراعظم سے رابطہ کرکے ایک ہفتہ میں کمیشن کا اجلاس بلایاجائے اورسانحہ مری کے ذمہ داران کا تعین کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔گذشتہ روز مری کے رہائشی حماد عباسی کی دانش اشراق عباسی ایڈوکیٹ کے ذریعے دائر درخواست پر سماعت کے دوران وکیل نے کہاکہ مفاد عامہ میں پٹیشن کی فائل کی پٹشنر7جنوری کو مری گیا،جب ٹول پلازہ سے سیاح مری جا رہے تھے تو کسی نے ان کو نہیں روکا نہ خدشے سے آگاہ کیا،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تو سیاح ہر سال اسی طرح مری جاتے ہیں ، عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ جو روسٹرم پر بلا کراین ڈی ایم اے سے متعلقہ قوانین پڑھنے کی ہدایت کی،چیف جسٹس نے کہا کہ این ڈی ایم اے اتنی بڑی باڈی ہے جس میں سارے متعلقہ لوگ موجود ہیں اپوزیشن بھی ہے،کیا اتنی بڑی باڈی کی کبھی بھی کوئی میٹنگ ہوئی ہے؟،ڈپٹی اٹارنی جنرل نےکہاکہ میں اس حوالے سے ہدایات لیکر ہی عدالت کو آگاہ کر سکتا ہوں،جس پر عدالت نے این ڈی ایم اے حکام کو طلب کرتے ہوئے کہاکہ کیا این ڈی ایم اے کی اس حوالے سے کبھی میٹنگ ہوئی،اس حوالے سے تو باقاعدہ مینجمنٹ پلان ہونا چاہیے تھا،اگر کمیشن کی میٹنگ نہیں ہوئی تو کیوں نہیں ہوئی،اگر اس ڈسٹرکٹ کے لیے کوئی مینجمنٹ پلان نہیں تھا تو کیوں نہیں تھا؟، اس حوالہ سے تو باقاعدہ منیجمنٹ پلان ہوناچاہیے تھا اگر کمیشن کی میٹنگ نہیں ہوئی تو کیوں نہیں ہوئی، عدالت نے این ڈی ایم اے حکام کو طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر این ڈی ایم اے حکام عدالت پیش ہو گئے،عدالت نے ممبر ڈیزاسٹر منیجمنٹ سےکہا کہ کل کو خدا نخواستہ زلزلہ آئے تو آپ نے کہا تھا کہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان 22 لوگوں کی ہلاکت کا ذمہ دار کون ہے؟،ایک قانون ہے پارلیمنٹ نے بنایا ہے 2010 سے اس پر عمل درآمد ہونا تھا،عدالت نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ قانون کی متعلقہ شقیں پڑھنے کی ہدایت کی اور درخواست گزار کی شکایت ہے کہ کوئی تیاری نہیں تھی وگرنا 22 افراد کی جانیں نہ جاتیں،غیر متعلقہ بات نہ کریں، اگر آپ سب پہلے سے تیار ہوتے تو وہ 22لوگ جن میں 9بچے بھی نہ جاتے، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی آج تک کبھی میٹنگ ہوئی ہے ؟،ممبر این ڈی ایم اے نے بتایاکہ 21 فروری 2013 کو ایک میٹنگ ہوئی دوسری میٹنگ 28 مارچ 2018 کو ہوئی، عدالت نے استفسارکیا کسی لیڈر آف دی اپوزیشن نے آپ کو درخواست کی کمیشن کی مینٹنگ بلائیں؟، ممبر این ڈی ایم اے نے بتایاکہ کسی اپوزیشن لیڈر ہمیں میٹنگ بلانے کا نہیں کہا،کمیشن میں وزیر اعظم کی سربراہی میں صوبوں کےوزراء، سینیٹ کے علاوہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اپوزیشن لیڈرز، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور دیگر ممبران ہیں،کوویڈ کے دنوں میں ڈی جی نےوزیر اعظم کو میٹنگ بلانے کہ درخواست کی تھی، چیف جسٹس نے کہاکہ اس سے زیادہ کوئی پاورفل باڈی کوئی اور ہو سکتی ہے،کبھی ڈائریکٹر جنرل نے حکومت کو لکھا کہ میٹنگ بلائیں وگرنا کل کوئی آفت آئی تو ذمہ داری ہم پر آئے گی،چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ آپ ناکام ہوئے ہیں ، آپ کی ذمہ داری تھی کہ میٹنگ بلاتے اس علاقے کے لیے نیشنل مینجمنٹ پلان دیتے،آپ سمجھ نہیں رہے آپ کی اتھارٹی نے اس قانون پر عمل درآمد کرانا تھا کسی اور پر الزام نہ لگائیں،یہ آپ کی ذمہ داری تھی آپ نے اس قانون پر عمل درآمد کرانا تھا،آپ نے کوئی نینشل پلان بنایا ؟،اتنا زبردست قانون ہے کہ ہر ضلع کے زمہ داروں تک کے لئے زمہ داری ڈالتا ہے،آپکی دمہ داری ہے کہ اس باڈی کی میٹنگز ہوں اور قانون پر عمل درآمد ہو، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیاکہ صوبائی باڈیز کی کبھی میٹنگز ہوئی ہیں؟،کیا پر ڈسٹرکٹ میں یہ نوٹیفائی ہے ؟،اگر اس قانون پر عمل ہوا ہوتا تو ایک شہری کی بھی ہلاکت نہ ہوتی،کیا ڈسٹرکٹ پنڈی کے لیے مری کے حوالے سے 2010 سے کوئی ڈسٹرکٹ پلان ہے ؟،2010 میں قانون بنا آپ 2021 میں عدالت کو بتا رہے ہیں کہ ہمیں چیک کرنا ہے،اس کیس میں تو کوئی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں اس قانون پراین ڈی ایم اے نے عمل کرانا تھا،اگر ڈسٹرکٹ پلان ہوتا تو یہ نہ ہوتا جو کچھ ہوا اس میں تو انکوائری کی ضرورت ہی نہیں،باہر جا کر تقریریں سب کرتے ہیں قانون پر عمل درآمد کوئی نہیں کرتا،قانون کے مطابق ہر ضلع میں ڈسٹرکٹنپلان ہوتاہے لیکن آج تک پلان نہیں بنا، انکوائری کی ضرورت ہی نہیں تمام ذمہ داری این ڈی ایم اے کی ہے،این ڈی ایم اے کمیشن کا ہر بندہ اس واقعہ کا ذمہ دار ہے،سب لگے ہوئے ہیں مری کے لوگ اچھے نہیں ان کا کیا قصور ہے ؟،بلاوجہ سب مری کے لوگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، 11سالوں میں آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ مری کیلئے کوئی پلان ہےنیا نہیں، اگر آپ نےکام کیاہو،ڈسٹرکٹ پلان ہو تو کوئی ہوٹل والا زیادہ پیسے نہی. لےنسکتا، چیف جسٹس نے ممبر این ڈی ایم اے سے کہاکہ ان اموات کے آپ ذمہ دار ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت اس پر فیصلہ دے،اس قانون میں جتنے لوگ ہیں وہ سب اور پوری ریاست ذمہ دار ہے، اگر نیشنل کمیشن کی میٹنگ 2018 کے بیان نہیں ہوئی تو ذمہ داری آپ پر ہی عائد ہوتی ہے،عدالت نے ہداہت کی کہ وزیراعظم اجلاس بلا کر ذمہ داروں کا تعین کریں، اس موقع پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی زیادہ وقت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ انتہائی اہم اور فوری نوعیت کا معاملہ ہے، اس دوران کوئی اور سانحہ ہو گیا تو ذمہ دار کون ہو گا، ذمہ داروں کا تعین کر کے آئندہ جمعہ تک عدالت کو آگاہ کریں، عدالت نےمذکورہ بالا ہدایات کے ساتھ سماعت 21 جنوری تک کیلئے ملتوی کردی۔