قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان میں دہشت گردی کو برداشت نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور کشیدگی پھیلانے والوں یا تمام تنظیموں سے پوری طاقت کے ساتھ نمٹنے کا عزم دہرایا گیا۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ شہباز شریف کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا 40واں اجلاس منعقد ہوا ، جس میں متعلقہ وفاقی وزرا، مسلح افواج کے سروسز چیفس اورانٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔
اجلاس نے قرار دیا کہ ’قومی سلامتی‘ کا تصور معاشی سلامتی کے گردگھومتا ہے اور یہ کہ معاشی خودانحصاری اور خودمختاری کے بغیر قومی خودمختاری اور وقارپر دباﺅ آتا ہے۔
مزید بتایا گیا کہ اجلاس میں موجودہ معاشی صورتحال اور ان چیلنجز کا جامع انداز میں جائزہ لیا گیا جس کا خاص طور پر پاکستان کے کم اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کو سامنا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے اجلاس کو معاشی استحکام کے روڈمیپ کے حوالے سے بریفنگ دی، جس میں عالمی مالیاتی اداروں سے مذاکرات کا اسٹیٹس بھی شامل ہے، اس کے ساتھ ساتھ باہمی مفادات پر مبنی دیگر مالیاتی ذرائع کو تلاش کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے حوالے سے بھی بریفنگ دی۔
جاری بیان میں مزید بتایا گیا کہ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی نے ٹھوس اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا، جس میں درآمدات کی ریشلنائزیشن اور کرنسی کے غیر قانونی انخلا اور ہنڈی حوالے کو روکنا شامل ہے۔
بیان کے مطابق اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ خاص طور پر زرعی اور صنعتی پیداوار کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی تاکہ خوراک کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے، اس کے علاوہ امپورٹ سبٹیٹیوشن اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔
مزید اتفاق کیا گیا کہ ایسی عوام دوست پالیسیاں بنانا ترجیح ہوگی جن کا فائدہ عام آدمی کو منتقل ہو گا۔
مزید بتایا گیا کہ مؤثر اور تیز رفتار اقتصادی بحالی اور روڈ میپ کو حاصل کرنے کے لیے اتفاق رائے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
مزید بتایا گیا کہ 3 کروڑ 30 لاکھ سیلاب متاثرین کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کے حوالے سے بتایا گیا کہ کمیٹی کا اجلاس میں تمام وسائل کو بروئے کار لا کر صوبائی حکومتوں اور کثیر الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ مل کر سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیرنو پر اتفاق کیا گیا۔
جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ سلامتی کمیٹی اجلاس نے وزیر اعظم اور وفاقی اکائیوں کی قیادت میں جاری امدادی کوششوں کو بھی سراہا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ کمیٹی کو ملک کی سیکیورٹی کی صورت حال اور خاص کر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔
وزیراعظم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کے لیے سماجی اقتصادی ترقی اور نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ کی سرپرستی کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ مسلح افواج بھرپور، محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کریں گی۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ کوئی بھی ملک دہشت گردوں کے لیے کوئی پناہ گاہ یا سہولت فراہم نہیں کرے گا اور پاکستان اس حوالے سے اپنے شہریوں کی حفاظت کا حق رکھتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی میں پاکستان میں دہشت گردی کو برداشت نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور کشیدگی پھیلانے والوں یا تمام تنظیموں سے نمٹنے کا عزم دہرایا گیا۔
دہشت گردی کے حوالے سے اجلاس میں کہا گیا کہ اس سے پوری طاقت کے ساتھ نمٹا جائے گا۔
اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور پاکستان کے ہر کونے میں ریاست کی مکمل عمل داری قائم کی جائے گی۔
سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صوبائی اپیکس کمیٹیوں کو بھی بحال کردیا گیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں خاص طور پر محکمہ انسداد دہشت گردی کو مطلوبہ صلاحیت کے ساتھ لڑنے کے معیار میں لایا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جمعے کو ہونے والے اجلاس میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے دہشت گردی کو بھرپور قوت سے بلاتفریق ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا اور اجلاس پیر تک مؤخر کردیا تھا تاکہ تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلوں کو حتمی شکل دی جاسکے۔
قومی سلامتی کمیٹی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی سے متعلق فیصلہ سازی کا اہم ترین فورم ہے، اس کے اجلاس میں سینئر سویلین اور فوجی قیادت شریک تھی۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا دوسرے دور تک جاری رہنا کافی غیر معمولی ہے، اس لیے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ نہ صرف دہشت گردی سے نمٹنے بلکہ ملک کی تباہ حال معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بھی فیصلے کیے جائیں گے۔
حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ سول اور فوجی قیادت نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار پاکستان 2001 میں شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کے بعد امن حاصل کر چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست دہشت گردی کو دوبارہ سر اٹھانے نہیں دے گی کیونکہ یہ امن ہزاروں پاکستانی شہریوں کی قربانی کی بدولت حاصل کیا گیا ہے۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران ملک میں امن و امان کی صورت حال مزید خراب ہوئی ہے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان، داعش اور گل بہادر گروپ جیسے دہشت گرد گروہ پورے ملک میں بے دریغ حملے کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں باغیوں نے بھی اپنی پرتشدد سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ گٹھ جوڑ قائم کرلیا ہے۔
بنوں میں خیبرپختونخوا پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے محکمے کے تفتیشی مرکز میں پیش آنے والے واقعے اور اسلام آباد میں خودکش دھماکے کی کوشش نے ناصرف ایوان اقتدار میں خطرے کی گھنٹی بجائی بلکہ کئی ممالک کو اپنے شہریوں کی سلامتی کے حوالے سے فکرمند بھی کردیا ہے۔