سی ڈی اے کے شعبہ سٹریٹ لائٹس کی پیرا قوانین کی خلاف ورزی، منظم نیٹ ورک کو محض کوٹیشنز کے ذریعے ٹھیکے دیئے جانے کا انکشاف، تحقیقات کیلئے نیب کو تحریری درخواست

اسلام آباد(سی این پی )سی ڈی اے میں ہنگامی بنیادوں پرکام کرانے کی آڑ میں شعبہ سٹریٹ لائٹس ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے پیپراقوانین کے مطابق کھلی بولی لیکرمسابقتی قیمت کے تحت ٹھیکے ایوارڈ کرنے کے برعکس منظم نیٹ ورک کی جانب سے چوری چھپے اربوں روپے کے محض کوٹیشنز کے ذریعے ٹھیکے دئیے جانے کے سی ڈی اے کے میگاسکینڈل کاانکشاف ہواہے جس کی تحقیقات کے لئے سی ڈی اے کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن کے سینئیر وائس پریذیڈنٹ چودھری غلام اکبر نے نیب کو تحریری درخواست جمع کروادی ہے ۔ جمع کروائی گئی درخواست میں مذید انکشاف کیاگیا ہے کہ سی ڈی اے کے شعبہ ای اینڈ ایم کے ڈی جی منظور شاہ ، ڈپٹی ڈائریکٹر میاں عرفان جاوید جن کے خلاف قبل ازیں بھی ایف آئی اے نے مبینہ کرپشن کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا جس میں میاں عرفان جاوید گرفتار بھی رہے لیکن اسکے بعد انہیں پھر اسی شعبہ میں پہلے سے بھی زیادہ بااختیار بناکر تعینات کردیاگیا جنہوں نے اسی شعبہ میں تعینات ایک مذید اپنے ساتھی آفیسر عقیل احمد سندھو کے ساتھ مبینہ ملی بھگت کرکے انکے والد کی کمپنی کو بڑے پیمانے پر کوٹئشنز کے ذریعے ٹھیکوں سے نوازا اور گھر سرکاری فائیلیں لیجاکر خوب تابعداری کرکے ٹھیکے کوٹئشنز کے ذریعے دے ڈالے ۔ درخواست میں مزید الزام عائد کیاگیا ہے کہ اپنے رشتہ دار کوئی کوئی آفیسر سول سرونٹ رولز کے سیکشن آٹھ اعشاریہ پانچ کے تحت کوٹئیشنز پرٹھیکہ ایوارڈ کرنے کامجاز نہیں اور پر اس سے بھی حیران کن انکشاف یہ کیاگیا ہے کہ سابقہ چئیرمین سی ڈی اے عامر علی احمد نے سی ڈئ اے کے مذکورہ افسران کوکوٹیشنز کے ذریعے ٹھیکے ایوارڈ کرنے سے منع کر رکھاتھا لیکن ماتحت منہ زور اور بااثر افسران کے منظم اس نیٹ ورک نے انکے احکامات بھی ہوا میں اڑا ڈالے اور مبینہ میگا کرپشن کا دھندہ پوری طرح سے جاری رکھا ۔ درخواست میں یہ بھی کیاگیا ہے کہ اس معاملہ پر آواز اٹھانے پر زمہ داران کیخلاف ایکشن لینے کی بجائے ڈی جی منظور شاہ نے الٹا انہی کی فرم کو بلیک لسٹ کرڈالا تاکہ انکے ماتحت افسران کی کوٹیشنز کی آڑ میں جاری مبینہ کرپشن مہم میں کوئی رکاوٹ نہ ہیش آسکے ۔ مذکورہ درخواست گذار چودھری غلام اکبر نے رابطہ پر درخواست کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ یہی نہی بلکہ محرم الحرام میں شہر میں سٹریٹ لائٹس کی بحالی و تنصیب کےلئے فراہم کئے گئے تین کروڑ روپے کے فنڈز میں شعبہ سٹریٹ لائٹس مختلف مدوں میں غائب کرگیا ہے اور سٹریٹ لائیٹس شعبہ کی پروکیورمنٹ میں مستند کمپنیوں کی بجائے غیر معروف اور نہایت غیر میعاری سٹریٹ لائیٹس اور دیگر اشیاء خرید کو سٹور کی گئی ہیں جنکا اگر آڈٹ کیاجائے تو دودھ کا دودھ اور پانی پانی ہوجائے گا۔ اس بارے میں سی ڈی اے کے مذکورہ ڈی جی منظور سے ڈی ڈی میاں عرفان جاوید اور عقیل سندھو سے موقف جاننے کے لیے متعدد مرتبہ رابطہ کی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہ ہوسکا۔