برطانیہ میں بڑھتی تاریخی مہنگائی کی وجہ سے ہزاروں ایمبولینس ملازمین انگلینڈ اور ویلز میں ایک بار پھر ہڑتال پر چلے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ایمبولینس ورکرز کی جانب سے یہ احتجاج ان صنعتی کارروائیوں میں اضافہ ہے جس کے دوران ورکرز یونینز نے حکومت سے تنخواہوں اور نوکری کی شرائط کو بہتر بنانے کےلیے مذاکرات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمبولینس سروس سے وابستہ ملازمین نے گزشتہ سال 21 دسمبر کو ہڑتال کے اس سلسلے کا آغاز کیا تھا جب کہ فروری کے مہینے میں بھی مزید ہڑتالوں کی تاریخیں طے ہیں۔نرسنگ کے شعبے سے وابستہ افراد نے بھی ہڑتال کا آغاز کردیا جس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی، نرسنگ اسٹاف کی ہڑتال ریاستی مالی اعانت سے چلنے والی نیشنل ہیلتھ سروس میں پیمانے پر پائی جانے والے عدم اطمینان کی عکاسی کرتی ہے جس کا عملہ ضروریات زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث مشکلات کا شکار ہے۔
یونائیٹ یونین نے گزشتہ ہفتے ہونے والی 3 روزہ ہڑتال کے بعد کہا کہ اس کے ایمبولینس ورکرز میں سے 2 ہزار 600 سے زیادہ ارکان انگلینڈ اور ویلز میں ہڑتال پر تھے۔جنرل سکریٹری یونائیٹ یونین شیرون گراہم نے بی بی سی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے حکومت پر بے عملی کا الزام لگایا اور کہا کہ ہم حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یونائیٹ ایمبولینس کے کارکن 5ہفتے سے باہر ہیں، احتجاج کر رہے ہیں لیکن اس دوران تنخواہ کے اہم مسئلے کے بارے میں بات چیت اور مذاکرات کے لیے ایک میٹنگ تک نہیں ہوئی۔انہوں نے مزید کہا تنخواہ سے متعلق کوئی بات چیت آگے نہیں بڑھ رہی، یہ کہنا غلط ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ان کا کہنا تھا یہاں تک کہ سیکریٹری صحت اسٹیو بارکلے بھی کہہ چکے ہیں کہ بات چیت جاری ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم رشی سوناک متحرک نظر آرہے ہیں، انہیں مزید متحرک ہونے اور ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔