انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ضلع ننکانہ صاحب میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام پر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سے ایک شہری کو بچانے میں ناکامی پر دو پولیس افسران کو معطل کردیا۔
پنجاب پولیس کے بیان کے مطابق آئی جی نے ’قرآن کی بےحرمتی‘ کے الزام میں شہری کے قتل کا نوٹس لے لیا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی، جس میں مبینہ طور پر ننکانہ صاحب میں پولیس اسٹیشن کے باہر مشتعل ہجوم کو دیکھا گیا ہے۔
ویڈیو میں ہجوم کو واربرٹن پولیس اسٹیشن کا مرکزی دروازہ توڑتے اور کھولتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور اس کے بعد مشتعل ہجوم باہر سے عمارت پر دھاوا بول دیتا ہے۔
دوسری ویڈیو میں ایک نوجوان کو دکھایا گیا ہے جو مبینہ طور پر ہجوم کا حصہ ہے اور وہ پولیس اسٹیشن کے اندر مسکرا رہا ہے جہاں ٹوٹے ہوئے شیشے اور فرنیچر بکھرا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔
پولیس نے بیان میں کہا کہ ’آئی جی ڈاکٹر عثمان انور نے ننکانہ سرکل کے ڈی ایس پی نواز ورک اور ایس ایچ او وار برٹن فیروز بھٹی کو فوری طور پر معطل کردیا ہے‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’آئی جی نے ڈی آئی جی اے بی امین بخاری اور ڈی آئی جی اسپیشل برانچ راجا فیصل کو موقع پر پہنچ کر انکوائری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے‘۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ’کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں، چاہے وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو‘۔
انہوں نے کہا کہ ’واقعے کے ذمہ داروں، غفلت اور کوتاہی کے مرتکب عملے کے خلاف سخت محکمانہ اور قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی‘۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ننکانہ صاحب میں پیش آنے والے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی تفتیش کا حکم دے دیا ہے۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ ’پولیس مشتعل ہجوم کو روکنے میں ناکام کیوں ہوئی، قانون کی بالادستی یقینی بنانی چاہیے، کسی کو قانون پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے‘۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ امن و امان یقینی بنانا اس فریضے کے ذمہ دار متعلقہ اداروں کی اولین ترجیح تھی۔
پاکستان علما کونسل کے چیئرمین طاہر محمود اشرفی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قابل افسوس ہے کہ جس طرح مشتعل ہجوم بے حرمتی کے الزام پر ایک شہری پر حملہ آور تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ننکانہ صاحب میں قرآن کی بے حرمتی کے الزام پر شہری پر غیرانسانی تشدد اور قتل اور پولیس اسٹیشن پر حملہ قابل افسوس اور قابل مذمت ہے‘۔