وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے مقدمات کے حوالے سے پرویز الہٰی کی مبینہ آڈیو جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز الہٰی ادارے پر الزام عائد کر رہے ہیں اس لیے چیف جسٹس سے ہی درخواست کی جاسکتی ہے کہ اس معاملے کا نوٹس لیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے چوہدری پرویز الہٰی کی مبینہ آڈیو لیک پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل میاں نواز شریف کے بارے میں بھی آڈیو لیک ہوئی تھی کہ کس طرح انہیں سزا دلائی گئی۔
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ نواز شریف سے متعلق آڈیو لیک میں جج ارشد ملک نے ایک ایسی حقیقت بیان کی تھی کہ کس طرح سے ان سے فیصلہ کروایا گیا اور سزا دلوائی گئی۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ سابق جج ارشد ملک نے باقاعدہ نام لے کر بتایا گیا کہ کون انہیں بلاکر کیا کیا کہتے رہے اور انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس کا بھی باقاعدہ ذکر کیا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ پہلے والی آڈیو لیک پر کوئی کارروائی نہ ہونے کا یہ نتیجہ ہے کہ پرویز الہٰی کس دیدہ دلیری سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کو مینیج کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں چیف جسٹس پاکستان سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں اور میں نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ اس معاملے کا جائزہ لے اور وزارت قانون سے رائے لے۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کو ٹاسک دیا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف بادی النظر مقدمہ بنتا ہے، پہلے آڈیو کی فارنزک کی جائے اور پھر انہیں گرفتار کرکے معاملے کی تفتیش کا آغاز کیا جائے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ فارنزک رپورٹ میں آڈیو کے درست ہونے پر ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش کی جائے اور اگر یہ معاملہ اس سے آگے بڑھتا ہے تو پھر یہ چیف جسٹس یا جوڈیشل کمیٹی کے پاس جائے تاکہ عدلیہ کی عزت اور احترام کا تحفظ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ان جیسے لوگ کبھی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر ملک پر مسلط ہوئے اور ملک کا بٹھا بٹھادیا اور اب یہ لوگ عدلیہ کے کندھوں پر سوار ہونا چاہتے ہیں۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہو رہے اور صرف وقت دیا جارہا ہے لہٰذا اس پر نہ صرف درخواست خارج ہو بلکہ کارروائی کی جائے۔
انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار میں آئے اور پھر قمر جاوید باجوہ کے بارے میں جو گفتگو کر رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے لیکن اب یہ لوگ عدلیہ کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ جس طرح عمران خان اس ملک کے نظام کا مذاق بنا رہے ہیں اس پر کارروائی ہونی چاہیے اور میری ذاتی رائے ہے کہ اب ان کو گرفتار ہونا چاہیے بلکہ حکومت کے سامنے بھی یہ بات رکھنے جارہا ہوں کہ اب مزید اس شخص کو چھوڑنا فری ہینڈ دینے والی بات ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ دوسروں کو ڈیڑھ سال تک جیلوں میں رکھنے والے خود تین دن بھی برداشت نہیں کر سکے اور بدقسمتی یہ ہے کہ عدالت سے رہائی کے بعد پھر وہی بات کرنا شروع کرتے ہیں اور اداروں کی توہین کرتے ہیں لیکن پھر سے انہیں ریلیف دیا جاتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہون نے کہا کہ پرویز الہٰی جو بات کر رہے ہیں وہ ایک ادارے پر الزام عائد کر رہے ہیں اور اس پر نوٹس لینے کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو ہی درخواست کی جاسکتی ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہم اس کی فارنزک کروائیں گے اور جب تک اس کا معائنہ نہ کیا جائے وہ حتمی نہیں ہوتا لیکن کچھ حد تک تصدیق ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر چوہدری پرویز الہٰی کی آڈیو کا پہلا حصہ سچ ثابت ہوتا ہے اور دوسرا نہیں ہوتا تو پھر یہ واضح ہے کہ مجرمانہ گفتگو کا حصہ ہیں جس میں وہ عدلیہ کے خلاف ایسی گفتگو کر رہا ہے جس سے عدلیہ سے اعتماد اٹھ جائے اور ناقابل تلافی نقصان پہنچے۔