چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) آفتاب سلطان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔نجی نیوز چینل رپورٹ کیا کہ آفتاب سلطان نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دیا کہ ’کچھ چیزیں کرنے کا کہا گیا جو میرے لیے ناقابل قبول تھیں‘۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چیئرمین نیب آفتاب سلطان کا استعفی منظور کر لیا، وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق آفتاب سلطان نے ’ذاتی وجوہات‘ کی بنا پر استعفی پیش کیا تھا۔
وزیرِ اعظم ہاؤس کے مطابق شہباز شریف نے آفتاب سلطان کی اپنے فرائض کی انجام دہی میں ایمانداری اور فرض شناسی کی تعریف کی اور چیئرمین نیب کے اصرار پر وزیر اعظم نے استعفیٰ منظور کر لیا۔
سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان کو 21 جولائی 2022 کو 3 برس کے لیے جسٹس (ریٹائرڈ ) جاوید اقبال کی جگہ چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) تعینات کیاگیا تھا تاہم انہوں نے صرف 7 ماہ بعد اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔
ان کے تقرر کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ آفتاب سلطان کو قومی اسمبلی میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کے بعد چیئرمین نیب مقرر کیا گیا۔
نوٹیفکیشن میں بتایا گیا تھا کہ آفتاب سلطان کو بنا توسیع کے 3 برس کے لیے نیب کا چیئرمین مقرر کردیا گیا ہے اور اس کا نفاذ ان کے چارج سنبھالتے ہی ہوجائے گا، چیئرمین نیب کو سپریم کورٹ کے ایک جج کے برابر مراعات حاصل ہوں گی۔
ان کے تقرر کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناللہ نے کہا تھا کہ سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان کو چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) تعینات کردیا گیا، امید ہے کہ آفتاب سلطان اپنی صلاحیتوں اور تجربات سے نیب جیسے ادارے کو غیرجانبدار اور صحیح معنوں میں احتساب کرنے والا ادارہ بنانے میں کامیاب ہوں گے۔
مستعفیٰ چیئرمین نیب آفتاب سلطان پولیس سروس آف پاکستان سے گریڈ 22 سے ریٹائر افسر ہیں، انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون کے شعبے میں گریجویشن کیا بعد میں کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم اور ایڈنبرگ یونیورسٹی سے فلسفہ قانون اور لیگل اسٹڈیز کے شعبے میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ۔
اپنے سرکاری ملازمتی کریئر کے دوران آفتاب سلطان سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ڈی جی انٹیلی جنس بیورو تعینات رہے۔
سرگودھا میں 2002ء کے دوران بحیثیت ریجنل پولیس آفیسر کے آفتاب سلطان نے جنرل پرویز مشرف کے ریفرینڈم میں انتظامیہ کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا، یاد رہے کہ جنرل مشرف کو اس وقت ملک کا چیف ایگزیکٹیو کہا جاتا تھا، چنانچہ انہیں اس کا خمیازہ اس صورت میں بھگتنا پڑا کہ انہیں او ایس ڈی بنادیا گیا۔
ان کے کیریئر کی سب سے اہم بات پانچ ہزار صفحات کی ایک رپورٹ ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر بحیثیت ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس، مشہور زمانہ بنک آف پنجاب کے مقدمے کے حوالے سے مرتب کی تھی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آفتاب سلطان کو بطور تفتیشی افسر مقرر کیا تھا۔