امریکا کے بعد برطانیہ اور نیوزی لینڈ نے بھی ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردی ہے، نیوزی لینڈ کے حکام کے مطابق پارلیمانی نیٹ ورک سے منسلک تمام ڈیوائسز پر ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی ہوگی۔حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پارلیمانی نیٹ ورک سے منسلک ڈیوائسز پر ٹک ٹاک کی پابندی کا اطلاق 31 مارچ سے ہوگا۔
دوسری جانب غیر ملکی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت نے ٹک ٹاک پر پابندی کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ چینی حکومت برطانیہ کے سرکاری ڈیوائسز کے ذریعے حساس معلومات تک رسائی حاصل کرسکتا ہے
برطانیہ کے کابینہ وزیر اولیور ڈاؤڈن کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے سرکاری ڈیوائسز میں ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی عائد کی جا رہی ہے جو فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔
دوسری جانب ٹک ٹاک نے چینی حکومت کو حساس معلومات تک رسائی کرنے سے متعلق برطانیہ کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
اس کے علاوہ لندن میں چینی سفارت خانے نے پابندی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام حقائق کی بجائے سیاست پر مبنی ہے اور اس سے برطانیہ کے کاروباری ماحول میں بین الاقوامی برادری کے اعتماد کو نقصان پہنچے گا۔
چینی سفارتخانہ کے مطابق فیصلہ برطانیہ میں متعلقہ کمپنیوں کے معمول کے کاموں میں مداخلت ہے، ایسے فیصلے سے برطانیہ کے اپنے مفادات کو ہی نقصان پہنچے گا۔
برطانیہ کے کابینہ وزیر اولیور ڈاؤڈن نے کہا کہ وہ عوام کو ٹک ٹاک استعمال نہ کرنے کا مشورہ نہیں دیں گے لیکن عوام کو ہمیشہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی ڈیٹا پالیسی کو ڈاؤن لوڈ اور استعمال کرنے سے قبل انہیں پہلے غور سے پڑھنا چاہیے’۔
برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سوناک پر سینئر ممبران پارلیمنٹ کا دباؤ تھا کہ وہ امریکا اور یورپی یونین کی طرح برطانیہ میں بھی سرکاری ڈیوائسز سے ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کریں۔
ٹک ٹاک کے ترجمان نے پابندی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی وسیع سیاسی غلط فہمیوں کی بنیاد پر لگائی گئی ہے جس میں ٹک ٹاک یا اس کے لاکھوں صارفین کا کوئی کردار نہیں ہے
حالیہ برسوں میں ٹک ٹاک کے استعمال میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، دنیا بھر میں حال ہی میں 3 ارب 50 کروڑصارفین نے ٹک ٹاک کی ایپلی کیشن کو ڈاؤن لوڈز کیا ہے۔