پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ تمام اداروں کی اپنی اپنی آئینی ذمہ داریاں ہیں، ان کا اختیار پارلیمنٹ کی مرہون منت ہے، پارلیمنٹ نے طے کیا ہے کونسا ادارہ کس دائرہ کار کے تحت کام کرے گا، پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار ہے، آج حکومت، پوری قوم اور اداروں کو 3 بنیادی نکات پر رہنمائی کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ کی رہنمائی سے حکومت ان چیزوں سے نبرد آزما ہو گی۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اس وقت سیاسی اور عدالتی بحران ہے، یہ بحران نہیں بلکہ بحران پیدا کیا جا رہا ہے، ایک ہی شخصیت پر جاکر بات رکتی ہے، حالات خراب تو نہیں لیکن حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے مختلف آرا ہیں، اس وقت معاشی بحران ہے، معاشی بحران پر بھی رہنمائی کی ضرورت ہے، سیاسی، انتظامی، عدالتی بحران درپیش ہے، یہ بحران تھا نہ ہے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا ایک جماعت اور اس کا لیڈر عمران خان گزشتہ 10 سال سے ملک میں افراتفری، انارکی، بحرانی کیفیت پیدا کر رہے ہیں، دھرنے کے دوران پارلیمنٹ کی تضحیک کرنے کی کوششں تاریخ کا حصہ ہے، 2018 سے کبھی لانگ مارچ، کبھی احتجاجی جلسے ہوئے، اس بندے نے کبھی ایک ہفتہ بھی سکون سے نہیں گزارا، 2018 میں کچھ قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن کو رگ کیا، الیکشن کو مینج کر کے اس کو اقتدار میں لایا گیا۔
وزیر داخلہ نے کہا جب یہ اقتدار میں آیا تو شہباز شریف نے چارٹر آف اکانومی کا کہا، بلاول بھٹو نے کہا تھا عمران خان قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں، اس وقت موصوف نے کہا آپ لوگ چور، ڈاکو ہیں چھوڑوں گا نہیں، پونے 4 سال تک سیاسی انتقام لیا گیا، نیب کے چیئرمین کو استعمال کیا گیا، ان کے دور میں جو چیئرمین نیب کی ویڈیو لیک ہوئی تھی اس کی تو آج تک تحقیقات نہیں ہوئی، آج آپ کو ویڈیو لیکس پر بڑا غصہ آتا ہے۔
رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ اس وقت چیئرمین نیب کی ویڈیو لیک کر کے انہیں قابو کیا گیا، شہزاد اکبر روزانہ پریس کانفرنس کرتا تھا، پونے 4 سال میں معاشی طور پر ملک کا بیڑہ غرق کیا گیا، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اس نے کیا، آج آئی ایم ایف کہہ رہا ہے پہلے شرائط کو پورا کریں، سیاسی، انتظامی اور ملک میں افراتفری پھیلائی، یہ ایک فتنہ اور فساد ہے اس کےعلاوہ کوئی کام نہیں آتا، قوم نے اس کی شناخت نہ کی تو ملک کو حادثے سے دوچار کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہٹلر بھی بڑی جوشیلی تقریریں کرتا اور لوگوں کے ذہنوں پر بڑا اثر کرتا تھا، اس وقت بھی لوگوں نے کہا تھا اس کی شناخت کرلیں، جرمن قوم میں اگر ہٹلر نہ آتا تو آج جرمن قوم دنیا کو لیڈ کر رہی ہوتی، پہلے سائفر کا پراپیگنڈا کیا گیا، نومبر میں ایک اہم تعیناتی اور ایک ادارے کو متنازعہ بنایا گیا، قتل کرنے کا ڈرامہ بناتا ہے لیکن کوئی شواہد نہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ 26 نومبر کو انہوں نے عوام کا سمندر لاکر الیکشن کی تاریخ لینا تھی، 26 نومبر کو عوام نے اس کے ایجنڈے کو مسترد کیا، اسے کہا گیا پوری قوم آ رہی ہے جب اس نے ہیلی کاپٹر سے نیچے دیکھا تو عوام نہیں تھے، اس نے فرسٹریشن میں پھر اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دیا، اس کا مقصد تھا بحرانی کیفیت جاری رہے، اسمبلیاں توڑنے کے بعد 90 دن میں الیکشن کرانے کی آئینی قدغن ہے۔
رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ 30 اپریل کو اگر الیکشن ہو تو آئینی مدت پوری نہیں ہوتی، انتظامی، سیاسی افراتفری پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے جس پر پارلیمنٹ کی رہنمائی کی ضرورت ہے، 14 سے 18 مارچ تک لاہور زمان پارک میں یہ اپنا مورچہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، وہاں پر شرپسند، دہشت گرد تنظیموں سے جن کا تعلق تھا مسلح تھے، وہاں پٹرول بم، غلیل، پتھروں کی بوریاں جمع تھیں۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈی آئی جی آپریشن پر حملہ کیا گیا، سب کو معلوم ہے اینٹی رائٹ پولیس کے پاس ربڑشیٹ کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ہوتا، پولیس، رینجرز کے پاس بھی کوئی اسلحہ نہیں تھا، آپریشن کا مقصد نو گو ایریاز کو ختم کرانا تھا، اس دوران 68 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، دوسری طرف سے فائرنگ، غلیل، پتھراؤ کیا گیا، پولیس کی طرف سے سنگل فائر نہیں کیا گیا۔
وزیر داخلہ نے کہا 18 مارچ کو زمان پارک کو کلیئرکیا گیا، ایک مقدمہ درج ہے جس میں 316 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، انسداد دہشت گردی کورٹ میں انہیں پیش کیا جائے گا، پولیس کی گاڑیوں، موٹرسائیکلز کو جلایا گیا، جوڈیشل کمپلیکس، اسلام آباد ہائی کورٹ پر یہ حملہ آور ہوئے، عدالتی کارروائی میں مداخلت کی گئی، توشہ خانہ کی چوریوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، ایک جعلی رسید پیش کی۔
رانا ثنا اللہ نے کہا ٹیریان وائٹ کیس میں بھی اس کے پاس کوئی جواب نہیں، فارن فنڈنگ کیس بھی کلیئر ہے، یہ عدالتوں میں پیش ہونے سے گریزاں ہے، یہ مسلح لوگوں کو ساتھ لیکر عدالتوں میں پیش ہوتا ہے، کل چوروں کی طرح لاہور ہائی کورٹ پیش ہوا تب لوگ کیوں نہیں آئے، دانستہ طور پر ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں، لا اینڈ فورسز کا بھی کہنا ہے نہتی پولیس فورس کارگر نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے مزید کہا مسلح جتھوں، دہشت گردوں، شرپسندوں کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس، لا اینڈ فورسز کو تمام اختیارات دیئے جائیں، یہ کہا گیا اسے گرفتار نہیں کیا گیا پولیس کی ناکامی ہے، نگران حکومت کی کوشش تھی کوئی خون خرابہ نہ ہو، یہ فتنہ چاہتا ہے اسے لاشیں ملیں، آئین میں درج ہے اسمبلی تحلیل ہو تو 90 دن کے اندر الیکشن ہونا چاہیے، تو کیا آئین میں یہ درج نہیں کہ شفاف الیکشن ہونا چاہیے۔
وزیر داخلہ نے کہا آئین میں ہے جب الیکشن ہو تمام الیکشن ایک ہی دفعہ ہو، یہ بات غلط ہے کہ ہم الیکشن نہیں چاہتے، ہم چاہتے ہیں اکٹھے الیکشن ہوں اور فیئر ہوں، آج معزز چیف جسٹس صاحب نے کہا الیکشن نہیں ہوں گے تو مداخلت کریں گے، جناب آپ مداخلت نہیں حکم کریں گے، مسلم لیگ نے ٹکٹیں دینے کا پراسس شروع کر دیا ہے، آپ کے حکم کو رد کرنے کا نہیں سوچا جا سکتا۔
رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ آئین میں سپریم کورٹ کے اختیار کو تسلیم کرتے ہیں، کیا ہماری رائے غیر قانونی ہے، اس قسم کا الیکشن ملک میں انارکی، عدم استحکام لائے گا، کیا یہ رائے اس قابل بھی نہیں کہ اس پر کوئی سوچ بچار کریں، یہ کہا گیا آڈیو لیکس عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، آڈیو لیکس اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، آڈیو لیکس پر معززعدلیہ کے ججز استعفے بھی دیتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں معاملات بھی چلائے جاتے رہے ہیں، دو دن پہلے والی آڈیو میں کیا علی ساہی نامی بندے کا کوئی وجود نہیں؟، کیا علی ساہی کے حوالے سے کوئی تحقیقات نہیں ہونی چاہیے، محترم چیف جسٹس صاحب ان کا حوال معلوم کرلیں، محترم چیف جسٹس صاحب لاہور ہائی کورٹ سے چند لوگوں کو بلا کر پوچھ لیں، علی ساہی کے قصے زبان زد عام ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک ساتھ الیکشن نہ ہوئے تو ملک میں بحران پیدا ہوگا، الگ الگ انتخابات کرانے سے ملک میں عدم استحکام، افراتفری ہوگی، 30 اپریل کی تاریخ 90 روز کی مدت سے باہر ہے، آئین میں درج ہے اسمبلی تحلیل ہو تو 90 دن کے اندر الیکشن ہونا چاہیے، 2008 میں خیبرپختونخوا کی اسمبلی چھ ماہ پہلے تحلیل اور ڈیڑھ ماہ بعد 3 اسمبلیاں تحلیل ہوئی تھیں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا بے نظیر کی شہادت کی وجہ سے ساڑھے چار، پانچ ماہ بعد الیکشن ہوئے تھے، 1988 میں بھی سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے الیکشن آئین کی مدت سے آگے ہوئے تھے، ہماری رائے ہے تدبر، دانائی سے فیصلہ کرنا ہوگا، ایک شخص ملک میں فتنہ، فساد چاہتا ہے، اس کے بارے حکیم سعید نے 30 سال پہلے لکھا تھا، اس فتنہ، فساد کو روکنے کیلئے فری اینڈ فیئر الیکشن ضروری ہے۔
انہوں نے کہا اگر فری اینڈ فیئر الیکشن نہ ہوا تو سیاسی استحکام نہیں آ سکے گا، ہم کوئی انہونی بات نہیں کر رہے، ہماری رائے ہوسکتی ہے لیکن آئین و قانون کے مطابق معاملات آگے بڑھانا چاہتے ہیں، اگر الیکشن اکٹھے اور فری اینڈ فیئر ہوں گے تو سب کیلئے لیول پلائنگ فیلڈ ہوں گے، بار کونسل کے ریفرنس کو سن لیں اگر کوئی بے گناہ ہے تو ثابت ہو جائے گا، ایک سابق چیف جسٹس کو یہ زیب دیتا ہے مخالف فریق کے وکیل سے بات کرے، بابا رحمتے نے خاتون لیڈر کیخلاف جو الفاظ استعمال کیے دہرا نہیں سکتا۔