سپریم کورٹ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بیک وقت انتخابات اور سیاسی جماعتوں میں مکالمہ سے متعلق شہری کی درخواست پر وفاق، الیکشن کمیشن اور 10 سیاسی جماعتوں کو کل کیلئے نوٹس جاری کر دیے جبکہ عدالت نے سکیورٹی صورتحال کی بنیاد پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کی وزارت دفاع اور الیکشن کمیشن کی متفرق درخواستیں ناقابل سماعت قرار دے کر نمٹا دیں۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے شہری سردار کاشف خان کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت کرانے سے متعلق درخواست پر سیاسی جماعتوں کو ان کے لیڈرز کے ذریعے نوٹس جاری کر دیے۔
ان میں عمران خان، شہباز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، خالد مقبول صدیقی، اختر مینگل، اسفند یار ولی، جام کمال خان، چوہدری شجاعت حسین، سراج الحق شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ اٹارنی جنرل پاکستان ، وفاق اور الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔عدالت نے اپنے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ درخواست گزار شہری کے وکیل شاہ خاور کی بات میں بادی النظر میں وزن ہے، انتخابات تمام سیاسی قوتوں کی تجاویز کے ساتھ بہترین انداز میں منعقد کیے جا سکتے ہیں تاہم یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ سیاسی مکالمے کا عمل سپریم کورٹ کے4 اپریل کو دیے گئے حکم کے مطابق پنجاب میں انتخابات کی تاریخ سے پہلو تہی کرنے کا باعث نہیں ہوگا، آئین کے مطابق صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات کرانا لازم ہے۔
تین رکنی بینچ نے پنجاب اور کے پی میں فنڈز کے حوالے سے کہا ہے کہ حکومت 21 ارب روپے 27 اپریل تک الیکشن کمیشن کو فراہم کرے، حکومتی گرانٹ کے بل مسترد ہونے کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم اور کابینہ ایوان میں اکثریت کھو بیٹھی ہے جبکہ اٹارنی جنرل کا مؤقف ہے کہ ایسا نہیں۔
اٹارنی جنرل سے فی الحال اتفاق کرتے ہوئے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ دوسری صورت بھی حکومت کو سنگین آئینی مسائل کی طرف لے جا سکتی ہے، عدالتی حکم کی نا فرمانی کے بھی سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت 27 اپریل تک 21 ارب روپے فراہم کرے۔عدالت نے سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی متفرق درخواستیں بھی نا قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نمٹانے کا حکم دے دیا۔