پاکستان میں 2022 کے دوران دھماکا خیز ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے سب سے زیادہ شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی۔لندن میں قائم ایک خیراتی ادارے ایکشن آن آرمڈ وائلنس (اے او اے وی) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک میں پیش آنے والے 126 واقعات میں دھماکا خیز ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے 721 شہری ہلاکتیں ہوئیں۔
ایکسپلوسو وائلنس مانیٹر 2022 کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 2021 کے 100 واقعات میں ریکارڈ کی گئی 445 شہری ہلاکتوں سے 62 فیصد زائد ہے۔
رپورٹ کے مطابق مزید برآں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ فی واقعہ شہریوں کے جان کے ضیاع کی شرح 4.5 سے بڑھ کر 5.7 ہوگئی۔
رپورٹ کے مطابق 2022 میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے سرفہرست 10 ممالک کی فہرست میں پاکستان نویں نمبر پر ہے دیگر ممالک میں یوکرین، افغانستان اور شام سرفہرست ہیں جب کہ بھارت 11ویں اور غزہ 13ویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا جب کہ ریاستی عناصر کی جانب سے دھماکا خیز مواد سے ہونے والے تشدد کے ریکارڈ شدہ واقعات کی تعداد 2021 کے برابر یعنی 3 رہی، ان حملوں سے ہونے والے نقصان کی شرح ایک سے بڑھ کر 18.3 ہو گئی، 2021 میں ایسے حملوں میں تین شہریوں کو نقصان پہنچا تھا جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 55 تھی۔
گزشتہ سال کے دوران دیسی ساختہ دھماکا خیز آلات (آئی ای ڈیز) سے پاکستان میں 71 فیصد (515) شہری ہلاکتیں ہوئیں جب کہ زمین سے چلائے جانے والے ہتھیاروں کی وجہ سے 194 شہری ہلاک ہوئے اور بارودی سرنگوں کی وجہ سے 12 (2021 میں 15 کے مقابلے میں معمولی کمی) ہوئی۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ملک میں دھماکا خیز تشدد کے سب سے زیادہ معروف مجرم ہیں۔
نومبر 2022 میں کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستانی حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کردی تھی جس سے امکان تھا کہ وہ پاکستان میں اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرتے رہیں گے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2022کے دوران عالمی سطح پر دھماکا خیز ہتھیار 4 ہزار 322 واقعات میں 31 ہزار سے زیادہ اموات اور زخمی ہونے کے ذمہ دار تھے۔
ہلاکتوں کی کُل تعداد میں سے 20 ہزار سے زیادہ عام شہری تھے، جو کہ 66 فیصد ہیں۔
رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ آبادی والے علاقوں میں استعمال ہونے والے دھماکا خیز ہتھیار 90 فیصد شہریوں کی ہلاکتوں کے ذمہ دار تھے، جبکہ دیگر علاقوں میں صرف 12 فیصد ہلاکتیں ہوئیں۔