وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا کام ثالثی یا پنچایت کرانا نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینا ہے اور 13 اگست کو پارلیمان کی مدت ختم ہونے کے بعد حکومتی اتحاد نے ایک ہی دن انتخابات کرانے پر اتفاق کیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے اجلاس کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی قریب میں جو ہماری نشستیں ہوئی جن میں ہمیں درپیش چیلنجز پر گفتگو ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں جو اقدامات اٹھائے گئے اور قومی اسمبلی اور جوائنٹ ہاؤس نے اس معاملے کو ڈیل کیا اور عدالت عظمیٰ کے حوالے سے آئینی اور قانونی اقدامات کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی صورتحال بڑی چیلنجنگ ہے، سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ جسے پارلیمان نے قبول نہیں کیا لیکن سپریم کورٹ اپنے تین رکنی بینچ کے ساتھ معاملات آگے لے کر جانا چاہتی ہے تو اس لیے ہم دوبارہ اکٹھا ہوئے ہیں تاکہ اس پر ہم اپنے فیصلے کا دوبارہ اعادہ کریں کہ ہم 3-4 کا فیصلہ مانتے ہیں، تین دو کا یا پانچ دو کا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ کل اسی بینچ نے الیکشن کے متعلقہ فنڈز کے حوالے سے جواب مانگا ہے، اس سے پہلے جو سپریم کورٹ نے جو فیصلے دیے تھے پارلیمان نے ڈیل کیا اور آج بھی پارلیمان نے فیصلے دیے ہیںٍ اور جو قراردادیں منظور کی ہیں، یہ معاملہ بھی پارلیمان چاہے گی کہ ان کے سامنے لایا جائے اور اس بارے میں اپنی رائے کو قوم کے سامنے لے کر آئیں اور ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ اس معاملے میں پارلیمان نے جو فیصلے دیے ہیں اس کا احترام کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اتحادی جماعتیں متفق ہیں کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں اور اتحادی حکومت ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے پرعزم ہے اور تمام فیصلے ملک کے وسیع تر مفاد میں کیے جائیں گے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو اپنے فیصلے میں کہا اس سے ہٹ کر میں نہیں سمجھتا کہ مجھے یا آپ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم سپریم کورٹ کو ضامن بنائیں، اس کو ہم ثالثی کا حق دیں، یہ ان کا کام نہیں ہے، پنچایت ان کا کام نہیں ہے، ان کا کام آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینا ہے لہٰذا اس بارے میں کہ ایک دن الیکشن ہونے چاہئیں اور کب ہونے چاہئیں اس بارے میں اتحادی جماعتوں میں تو مکمل ایکا اور اتفاق ہے کہ 13 اگست کو پارلیمان کی مدت ختم ہوتی ہے اور اس کے بعد 90 دن شامل کیے جائیں تو اکتوبر نومبر میں وہ تاریخ بنتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کو جو چیلنجز درپیش ہیں مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے ان کو حل کرنے کے بجائے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، اپنے صوبائی وزرائے خزانہ کو کہا کہ آپ آئی ایم ایف کی شرائط سے انکار کردیں تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری مشکلات پہلے ہی کم نہ تھیں کہ یہ کہہ کر مزید کانٹے بچھائے گئے کہ یہ سازش امریکا نے کی تھی اور پھر اتنی ڈھٹائی اور بے شرمی سے یوٹرن مارا، ایک دن یوٹرن مارا کہ امریکا نے سازش نہیں کی تھی، یہ سازش کے تانے بانے پاکستان کے اندر بُنے گئے تھے لیکن اس نے ہمارے خارجہ تعلقات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور پھر کس طرح میں نے، وزیر خارجہ اور ہم نے مل کر معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے زور لگایا۔
شہباز شریف نے کہا کہ معاملات میں بہتری تو آئی ہے مگر میں یہ کہنے کے قابل نہیں کہ معاملات تسلی بخش ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طریقے سے ملک کے اندر انتشار پیدا کرنے میں کوئی کمی نہیں کی گئی، تقسیم در تقسیم معاشرے میں کی گئی، پاکستان کے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے افراد میں زہر گھولا گیا، استاد کو طالبعلم سے، آجر کو اجیر سے، سیاستدان کو ورکرز سے، ہر طرح کے حربے استعمال کر کے اس ملک میں انتشار پیدا کرنے کے تمام مواقع پیدا کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کو بھی معاف نہیں کیا گیا اور پاکستان سے باہر پی ٹی آئی کے ایجنٹس جو پاکستان کے دشمن ہیں، انہوں نے وہ گھناؤنا کردار ادا کیا کہ شاید دشمن بھی وہ کردار ادا نہ کرپاتا اور اس طرح کے ٹوئٹس اور بیانات جاری کیے گئے، اپنی ذاتی انا اور ذاتی اقتدار کے لیے پاکستان کے ہر مقصد کو بری طرح قربان کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے تین چار معاملات ہیں جن پر پارلیمان اپنا فیصلہ دے چکی ہے اور کل ہمیں بتایا گیا ہے کہ دوبارہ اس کا فیصلہ کرنا ہے تو یہ میں نے اور آپ نے نہیں بلکہ پارلیمان نے اس کا فیصلہ کرنا ہے۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے شہباز شریف نے کہا کہ اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ہمیں گفتگو کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے تو اس کی کیا شکل ہو گی، اس کا فیصلہ ہم بیٹھ کر کر سکتے ہیں اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہم اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے بات ان تک پہنچائیں اور پارلیمانی کمیٹی اس پر بات کر کے پارلیمان میں اس حوالے سے گنجائش پیدا کر سکتی ہے، تاکہ قوم یہ جان سکے کہ اس اتحادی حکومت کے زعما نے اپنی آخری کوشش کر لی کہ ایک دن الیکشن کی تاریخ پر سب اکٹھے ہو جائیں اور اس پر ہم نے انا کو اپنا مسئلہ نہیں بنایا۔