پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر اور سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کا حصہ نہیں بن رہے۔
اسلام آباد میں جے یو آئی (ف) کی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ مجھے اس بات پر تعجب ہے کہ انتہائی قابل احترام عدالت عظمیٰ کیوں 90 دن کے اندر پھنس گئی اور اس کو کیوں آئین کے اس پہلو کا اندازہ نہیں ہے کہ وفاق کو بچانا ہے، فیڈریشن کو بچانا ملک کو بچانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا ہم سیاسی طور پر یہ بات نہیں سمجھتے کہ اگر آج پنجاب میں الیکشن ہوا تو جو پارٹی پنجاب میں کامیاب ہوگی پھر وفاق میں بھی وہی کامیاب ہوگی، ایک صوبے کی اجارہ داری جسے 18ویں ترمیم کے ذریعے ختم کیا گیا، چھوٹے صوبوں کو مطمئن کیا گیا، اس کوشش پر پانی پھر جائے گا اور تین صوبے ایک کے مقابلے میں آکھڑے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ فیصلہ کرتے ہوئے ان خدشات کو سامنے کیوں نہیں رکھا گیا، آج کے سپریم کورٹ کے رویے کو ہم مثبت پہلو سے دیکھ رہے ہیں کہ انہوں نے غیر معینہ مدت تک سماعت ملتوی کردی ہے، لیکن یہ کہہ کر کہ ان مذاکرات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ آج کیوں کہا جا رہا ہے، بھئی ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آپ ہی کی ضد تھی لیکن پھر بھی یہ کہا جارہا ہے کہ ایک طرف سیاست دان آپس میں بات کریں، آپ آپس میں طے کریں، ہمارا فیصلہ اپنی جگہ پر ہے تو ہتھوڑا بھی دکھا دیا، تو یہ ہتھوڑا ذرا ہٹادیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہماری عدالتیں مختلف انتظامی اداروں کے اختیارات کو سلب کرتی ہیں، شیڈول خود دیتی ہیں اور پھر خود کہتی ہے کہ سیاستدان آپس میں بیٹھیں اور سیاستدان بھی نہیں، تمام سیاستدان ایک پارٹی اور ایک شخصیت کو آمادہ کریں، یہ پہلو ہمارے نزدیک ذرا قابل اعتراض تھا لیکن اگر سینیٹ کے اندر وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی سے بات چیت ہونی چاہیے تو وہ وفاق کا ایک ادارہ ہے، تاہم اپنے اصول کے تحت ہم پھر بھی اس کا حصہ نہیں بن رہے، ہمارا مؤقف یہی ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا معاملہ ہے اور الیکشن کمیشن ہی اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئےاس معاملے کو آگے لے کر جائے۔
سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ میری نظر میں سپریم کورٹ کا 14 مئی کا فیصلہ اس وقت تک ناقابل عمل ہے، میں عدالت کے بارے میں ناقابل قبول کا لفظ استعمال نہیں کر رہا، کہتا ہوں کہ ناقابل عمل ہے اور ادراک خود ان کو بھی کرلینا چاہیے، یہ ہماری پارٹی کی سوچ ہے، میں نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کی، پارٹی کی پوری مجلس عاملہ نے اس کی توثیق کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے حوالے سے، اس کے طریقہ کار، اس کی مہم پر کراچی، حید رآباد اور سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی عدم اعتماد کیا جا رہا ہے، کوئٹہ شہر کے حوالے سے بلوچستان میں، فاٹا کے حوالے سے اور تمام سیاسی جماعتوں نے خیبر پختونخوا میں عدم اعتماد کیا گیا ہے، اس کا ہماری جماعت نے نوٹس لیا ہے، اس کے تحت ملک بھر میں پانچ سال بعد مجموعی طور پر ہماری آبادی کم ہوگئی جب کہ یہاں تو آبادی بڑھنی چاہیے تھی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اسی حوالے سے ووٹر لسٹیں بننی ہیں، اسی حوالے سے نئی حلقہ بندیاں ہونی ہیں جس پر لوگوں کو اعتماد نہیں ہوگا اور جبر کی بنیاد پر آپ الیکشن کروائیں گے، لہٰذا جے یو آئی نے اپنی حکومت سے کہا ہے کہ یہ جو ڈیجیٹل سسٹم کے تحت مردم شماری کی گئی، دور دراز کے علاقوں میں عام آدمی اس ڈیجیٹل نظام کو نہیں جانتا، جس طرح سے پچھلا الیکشن ایک مشین کے ذریعے کرایا گیا، اس کا نتیجہ دھاندلی کی شکل میں آیا، جس نے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج اگر مردم شماری کو ڈیجیٹل سسٹم کے تحت مکمل کیا گیا جب کہ لوگ اس کو نہیں جانتے، اس کو نہیں سمجھتے اور آپ کہتے ہیں کہ فارم بھر کردیں، یہ طریقہ تو ٹھیک نہیں ہے، کتنے لوگوں کو یہ طریقہ آتا ہوگا جو ان پر زبردستی تھونپا جا رہا ہے، اس معاملے پر فوری طور پر ایک کمیشن قائم کیا جائے، اگر یہ غلط مردم شماری ہے تو پھر اس کو دوبارہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی کی مجلس عاملہ نے اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جو کمیٹی پارلیمنٹ میں بنی تھی، اس نے اپنا کام، اپنی سفارشات مکمل کرلی ہیں تو اب تک کیوں اس پر قانون سازی نہیں ہوسکی، اس پر فوری طور پر قانون سازی ہونی چاہیے۔
صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ عمران خان اور ان کی جماعت کی حکومت کے ذمے داران اور پی ٹی آئی نے جو کرپشن کی ہے، جو مہا چوریاں کی ہیں جنہیں تاریخ پتا نہیں کن الفاظ کے ساتھ ذکر کرے گی، تاریخ کو بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ اس کرپشن کا کس طرح سے ذکر کریں، اس حوالے سے ایک سال گزر گیا، عوام منتظر ہیں کہ ان کے خلاف احتساب کا عمل کب شروع ہوگا، اس پر بھی فوری طور پر اقدامات ہونے چاہئیں، اس میں مزید کسی تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی مشکلات، مہنگائی اور دیگر مسائل کے حوالے سے عوام کو براہ راست جلسوں میں جاکر آگاہ کیا جائےگا، کس نے ملک کو اس دلدل میں پھنسایا، کس نے ملک کی معیشت کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا، قیمتوں پر کنٹرول ہمارے ہاتھ سے کیسے نکلا، اس کا کنٹرول آئی ایم ایف کو کیوں حاصل ہوا اور عوام اپنی حکومت سے شکایت کر رہے ہیں، روپے کا اوپر نیچے جانا، اسٹیٹ بینک کو آپ نے آئی ایم ایف کے حوالے کردیا، اس پر حکومت کا اختیار ختم ہوگیا ہے، ان تمام معاملات کے حوالے سے عوام کو آگاہ کرنا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے وزیر اعظم کی جانب سے تحقیقات کی بات نشاندہی کرتی ہے کہ انہوں نے بھی اس ذہن کو اپنالیا ہے کہ 2018 کے الیکشن میں بہت بڑی، ننگی دھاندلی ہوئی ہے، اس کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، ذمے داران کا تعلق جس ادارے کے ساتھ ہے، ہم اس ادارے کو بھی کہتے ہیں کہ وہ ذمے داران کے خلاف اپنے قانون کے تحت کارروائی کرے، اس کے بغیر معاملات نہیں چلتے۔
انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ بات کرکے کوئی سیاسی حل نکالا جاسکتا ہے، انہوں نے جو بیانات دیے، پہلے سے ہی کہہ دیا کہ مذاکرات ناکام ہوگئے، ہم عدالت کو کہنا چاہتے ہیں کہ آپ نے شاید ان کو نہیں پہچانا، ہم ان کو 12 سال پہلے پہچان چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امتحان ہر طرف سے ہے لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ حکومتی اتحاد متحد و یکجا ہے، جزیات پر اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن ہم ملک کے بڑے مقاصد کو جانتے ہیں، ان کا ادراک رکھتے ہیں، موجودہ حکومت وہ قومی حکومت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تمام جماعتیں مل کر ملک کو چلائیں۔
سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نا قابل عمل ہے، جو چیزیں ناقابل عمل ہوجاتی ہیں جیسا کہ بلدیات کے بارے میں بھی انہوں نے حکم دیا تھا، کالا باغ ڈیم کے حوالے سے حکم دیا تھا اس پر بھی عمل نہیں ہوسکا تھا، بعض چیزیں ہوتی ہیں، وہ بھی انسان ہیں، بعض فیصلے ایسے کر دیتے ہیں جن کو ہم ناقابل قبول تو نہیں کہہ سکتے لیکن وہ انسان کی استطاعت سے باہر ہوتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ عدالتیں انتخابات کے حوالے سے اداروں کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹس کا ادراک کریں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو مسائل پر قابو پانے میں مشکلات ہیں، میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ملک کو جس دلدل میں دھیکیلا گیا ہے، آنے والی حکومت اس کو نکالنے میں دقت محسوس کرے گی، میں نہیں سمجھتا کہ ہم اس سے کیسے نکلیں گے، گزشتہ تین چار سالوں میں ملک میں سیاسی، معاشی عدم استحکام آیا، ملک کے دفاعی نظام کو تقسیم کرنے کی سازش ہوئی، اس حکومت میں یہ ساری چیزیں ریاست کے خلاف ہوئیں، ان مسائل پر قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ایک طرف مہنگائی ہے تو دوسری طرف ترقیاتی منصوبے بھی شروع کیے جا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور متبادل راستے تلاش کیے جا سکیں۔