ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ نئی دہلی سے آنے والے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے باوجود وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری آئندہ ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق ممتاز زہرہ بلوچ نے پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ وزیر خارجہ 4 مئی کو شیڈول ایس سی او کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کے شہر گووا جائیں گے، اجلاس میں شرکت کا ہمارا یہ فیصلہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ مثبت اور تعمیری جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل دیگر رکن ممالک سے بھی اسی طرح کی مثبت حکمت عملی کا مظاہرہ کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔
ترجمان دفترخارجہ نے یہ بات بلاول بھٹو زرداری کے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کے حملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہونے کے الزام کے بعد ایس سی او اجلاس میں شرکت کے فیصلے پر نظر ثانی کے امکان کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم پچھلی کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے اثرات بھگت رہے ہیں، ہم نے پاکستان کی حدود میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت عالمی برادری کے سامنے پیش کیے ہیں، ہم پاکستان کو دہشت گردی کے کسی بھی واقعے سے جوڑنے کے دعوے مسترد کرتے ہیں، بھارتی حکام کے یہ تبصرے غیر ضروری اور بےبنیاد ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے یاد دہانی کروائی کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ گووا کے اعلان میں واضح کیا گیا تھا کہ یہ دورہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے تناظر میں کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کہ ’پاکستان ایس سی او کا ایک فعال رکن ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایس سی او کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستان کا مؤقف سنا جانا چاہیے، میں اس بات کا اعادہ کرتی ہوں کہ یہ دورہ شنگھائی تعاون تنظیم کے تناظر میں ہو رہا ہے، وزیر خارجہ کے دورے سے متعلق دیگر تمام باتوں کو نظر انداز کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ محض باتیں ہیں اور ان کا شنگھائی تعاون تنظیم اور اس کے امور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ اس طرح کے منفی بیانات اور منفی پیش رفت پاکستان کو ایک ایسی تنظیم میں اپنا کردار ادا کرنے سے روک نہیں سکتی جس کا پاکستان ایک ذمہ دار رکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ایس سی او کے تمام ارکان اس مثبت جذبے کو سراہیں گے جس کے ساتھ پاکستان اس اجلاس میں شرکت کر رہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کے امکانات کے بارے میں ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان کا مسلسل ایک مؤقف رہا ہے، پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے اور بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ امن اور دوستی کا خواہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا خیال ہے کہ 2019 کے واقعات اور خطے میں بھارت کی جنگجوانہ حکمت عملی کے بعد امن اور مذاکرات کی امید کمزور پڑچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ہم بھارت کے ساتھ ایک ایسا ماحول بنانے کے لیے اقدامات کی توقع کرتے ہیں جو امن اور مقبوضہ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر مذاکرات کی سہولت فراہم کرے’۔
آرمی چیف کے دورہ چین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم دورہ ہے اور یہ پاکستان اور چین کے درمیان کئی دہائیوں پرانے مضبوط دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران دونوں پاکستان کے اہم شراکت دار اور دوست ہیں، ان دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت سے پاکستان کے لیے حوصلہ افزا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب ان دونوں ممالک نے براہ راست رابطہ قائم کر لیا ہے، ہم ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ دو طرفہ تعلقات کو مزید معمول پر لانے اور علاقائی امن و استحکام کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے جاری رکھیں۔
پاکستان پر یوکرین کو گولہ بارود فراہم کرنے کے الزامات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان یوکرین اور روس کے درمیان تنازع میں غیرجانبداری کی پالیسی پر قائم ہے اس لیے ہم انہیں کوئی گولہ بارود فراہم نہیں کررہے، تاہم ماضی میں پاکستان کے یوکرین کے ساتھ مضبوط دفاعی تعلقات رہے ہیں۔