حساس قیمت انڈیکس سے پیمائش کردہ قلیل المدتی مہنگائی 11 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران 48.02 فیصد رہی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق سالانہ بنیادوں پر مہنگائی مسلسل دوسرے ہفتے 48 فیصد سے زائد رہی، جو 4 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران تاریخ کی بُلند ترین سطح 48.35 پر پہنچ گئی تھی، جس کی وجہ گندم کا آٹا، چینی، گوشت، دالیں اور سبزیوں کا مہنگا ہونا تھا۔
تاہم ہفتہ وار بنیادوں پر اس میں 0.27 فیصد اضافہ ہوا تھا۔حساس قیمت انڈیکس رمضان کے آغاز سے مسلسل بڑھ رہا ہے جس کی وجہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی، مہنگا پیٹرول، سیلز ٹیکس میں اضافہ اور بجلی کی بُلند قیمت ہے۔ایس پی آئی میں 51 اشیا کی قیمتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے، گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں زیرہ جائزہ ہفتے کے دوران 23 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، 7 کی قیمتوں میں کمی جبکہ 21 اشیا کی قیمتیں برقرار رہیں۔
زیرہ جائزہ مدت کے دوران سال بہ سال ان اشیا کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہوا، آلو (112.80)، گیس کے نرخ پہلی سہ ماہی (108.38 فیصد)، لپٹن چائے (106.09 فیصد)، کیلے (98.22 فیصد)، باسمتی چاول ٹوٹا (90.76 فیصد)، انڈے (89.40 فیصد)، پیٹرول (87.81 فیصد)، چاول ایری-6/9 (83.47 فیصد)، دال مونگ (66.91 فیصد)، ڈبل روٹی (62.83 فیصد) اور دال ماش (58.79 فیصد)۔
ہفتہ وار بنیادوں پر ان اشیا کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ دیکھا گیا، ٹماٹر (6.32 فیصد)، گڑ (3.41 فیصد)، گندم کا آٹا (2.76 فیصد)، تیار چائے (2.66 فیصد)، آلو (2.14 فیصد)، پکا ہوا گوشت (2.12 فیصد)، پکی ہوئی دال (1.98 فیصد)، خشک دودھ (1.91 فیصد)، انڈے (1.83 فیصد)، باسمتی چاول ٹوٹا (1.42 فیصد)، دال مسور (1.19 فیصد)، گائے کا گوشت (1.18 فیصد) اور صابن (1.04 فیصد)۔
وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق کم آمدنی والا طبقہ پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے، جو سیاسی عدم استحکام، مالیاتی بدنظمی اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کے سبب بے لگام ہو چکی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے سست روی کی وجہ سے ضروری فصلوں کی رسد گھریلو ضروریات سے کم رہی جس کے نتیجے میں مہنگائی میں شدت آئی۔رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ دوسری طرف، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سخت زری پالیسی نافذ کررکھی ہے تاہم افراطی توقعات نیچے نہیں آ رہیں۔