پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کراچی سے منتخب رکن قومی اسمبلی محمود مولوی نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی سندھ کے نائب صدر محمود مولوی نے کہا کہ میں اعلان کر رہا ہوں کہ میں پارٹی چھوڑ رہا ہوں اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے رہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے عمران خان نے ٹکٹ دیا تھا اور پارٹی نے بڑی عزت دی، پارٹی چھوڑنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں اپنی افواج کے خلاف زندگی میں کبھی گیا ہوں نہ جاؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں بدل سکتے ہیں، آج پی ٹی آئی ہے کل مسلم لیگ (ن) ہوگی اور پرسوں پیپلز پارٹی اور کبھی جماعت ہوگی لیکن ہم فوج کو کبھی نہیں بدل سکتے۔محمود مولوی نے کہا کہ مجھے 65 اور 71 کی جنگ یاد ہے، آج اسی فوج کی وجہ سے پاکستان سلامت ہے اور پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، انفرادی طور پر جھگڑا ہوتا ہے، یہ ہوسکتا ہے مجھے کسی کی شکل پسند نہ ہو، کوئی بریگیڈیئر یا کوئی جنرل پسند نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر میں بیٹھ کر پوری فوج کو کہوں گا کہ یہ فوج صحیح نہیں ہے اور فوج کے اوپر خاص طور پر شہدا اور ان کی یادگاروں پر ہنگامہ آرائی اور جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے، ہم کیا کہنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہ کام ہوا ہے جو بھارت نہیں کرسکا، آج ہم نے وہ کام کیا کہ وہاں جا کر یادگار توڑے، ریڈیو پاکستان جلایا، کون لوگ تھے مجھے نہیں معلوم کیونکہ میں اس ٹیم کا حصہ نہیں ہوں لیکن جو لوگ تھے وہ غلط تھے اور فوج کے خلاف جانا کہیں سے درست نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم کہتے ہیں کہ پوری فوج خراب ہے تو ہم بھارت سے فوج لے کر آئیں گے، امریکا، ایران یا افغانستان سے فوج لے کر آئیں گے، یا ہم اپنے آپ کو پٹے پر دیں گے جیسے جاپان نے دیا۔
کراچی سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی نے کہا کہ فوج کو ہٹا کر ملک نہیں چل سکتا، یہ ملک سیاسی جماعتیں سیاسی نظام پر آئی، ٹیبل پر بیٹھیں، صرف چند لوگ ڈنڈا بردار ہیں، چند لوگ انتہاپسندوں کو لے کر چل رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں جب پی ٹی آئی میں آیا تو واضح تھا کہ یہ ایک سلجھی ہوئی پارٹی ہے اور ہمارے پاس کوئی انتہاپسند ونگ نہیں تھا لیکن میں نے یہ واقعہ دیکھا تو بڑا افسوس ہوا، میں نے چند دوستوں کو اسی دن کہا تھا۔
محمود مولوی نے کہا کہ اس واقعے سے پہلے ہم چند دوست کراچی میں بیٹھے تھے اور بات ہو رہی تھی کہ خان صاحب کو اگر کچھ ہوگیا تو جی ایچ کیو کے سامنے جائیں گے اور آج سے 6 روز پہلے میں نے کہا تھا کہ آپ یہ چاہتے ہیں ہم سول وار کے لیے جائیں اور ہم فوج سے لڑیں، فوج سے لڑنا کہیں سے جائز نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج مجھے بہت سے لوگ کہتے ہیں آپ نے پارٹی چھوڑی دی، آپ کا ٹکٹ تھا، میرے لیے ایسی 100 چیزیں ہماری فوج پر قربان، فوج ہے تو پاکستان ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاک فضائیہ کا وہ جہاز جس کی ہم عزت کرتے تھے کہ 1965 میں اس نے بھار ت میں کیا برپا کیا تھا، بھارتی فوج ہم سے گھبراتی تھی لیکن آج ہم اس کی بے حرمتی کر رہے ہیں، اس پر لاتیں مار رہے ہیں، اس کو توڑ رہے ہیں، اس کی کہاں گنجائش ہے۔
محمود مولوی نے کہا کہ ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں استعفیٰ دے رہا ہوں، یہ نہیں ہے کہ میں کسی جماعت میں جا رہا یا کسی نے پیش کش کی ہے کیونکہ میں رکن قومی اسمبلی ہوں اور اسی علاقے میں میرا ٹکٹ کنفرم تھا، خان صاحب اور پوری ٹیم کی حمایت حاصل تھی، علاقے میں لوگ عزت کرتے تھے اس لیے سامنے والا کوئی پیش کش نہیں کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں یا تو ایک فلاحی ادارہ بناؤں گا، میری عمر ساتھ نہیں دے رہی ہے ورنہ میں ایک نئی سیاسی جماعت بناؤں، دوسری چیز ہوسکتی ہے کہ میں نئی سیاسی جماعت تشکیل دوں اور اس میں اس مائنڈ سیٹ کے لوگ آئیں، جو اس ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں اور ملک کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے مفاد کے لیے نہیں، میں یہ نہیں چاہوں گا کہ حکومت میں رہا تو فوج بہت اچھی، زیادہ تر جماعتوں کا یہی طریقہ ہے کہ جب تک وہ حکومت میں ہوتے ہیں فوج کو سلام کرتے ہیں اور فوج کی تعریفیں کرتے ہیں اور جیسے حکومت سے اترتے ہیں فوج کی برائی کرتے ہیں، میں کسی ایک جماعت کی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ ہر جماعت نے ایسا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی لڑائی لڑیں، سیاسی اور عوامی معاملات پر آئیں، اسمبلی میں اتنے عرصے سے کیا ہو رہا ہے، عوام کے روزگار، صنعت اور صحت کے بارے میں بات کریں، لوگوں کو سہولت دیں۔
محمود مولوی نے کہا کہ میں قوم، اپنی پارٹی اور دیگر جماعتوں کے لوگوں سے بھی کہوں گا کہ خوف کا بت توڑیں، زیادہ تر جماعتوں میں لوگ غلام ہی ہوتے ہیں، وہ صرف ہاں،ہاں سننا چاہتے ہیں، وہ یہ نہیں کہتے کہ آپ یہ بات غلط کر رہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہونا چاہیے، اگر وہ یہ کہنا شروع کریں گے تو ہمارا ملک یہاں نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی پالیسی غلط بن رہی ہے تو اسی وقت کھڑے ہو کر بتائیں کہ یہ پالیسی غلط بن رہی ہے، چاہے کوئی بھی جماعت بنا رہی ہے، چاہے مسلم لیگ (ن) بنا رہی ہو، کسی نے کہا کہ آٹے کی پالیسی غلط ہے، کسی نے پی ٹی آئی سے کہا، کسی نے سندھ میں پیپلزپارٹی سے کہا یہ آٹا کیوں مہنگا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے ان کو پارٹی سے نکالے جانے کا خوف ہے، اگلا ٹکٹ نہیں ملے گا، آج کل کے ماحول میں تو ساری جماعتوں کے قائدین سے لوگ خوف زدہ ہیں کیونکہ ان کو ٹکٹ ملنا ہے۔
پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کرنے والے رہنما نے کہا کہ آج ہم کہتے ہیں فوج بری ہے، کیا ہم فوج کے خلاف جا کر اقتدار میں آئے تھے، ہم فوج کو ساتھ لے کر آئے تھے، خان صاحب خود کہتے تھے فوج ہماری بیک بون ہے، آج مجھے نہیں معلوم کس نے ان کو مشورہ دیا ہے، جس نے بھی مشورہ دیا ہے، وہ پی ٹی آئی کے دشمن ہیں، فوج سے لڑ کر ہم کیا ثابت کریں گے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میرا سوفٹ ویئر کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ہے، سوفٹ ویئر تبدیل ہونا ہوتا تو کتنے اور لوگوں کا ہوتا، کتنے لوگ گئے ہیں۔
پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے جو لوگ ملوث تھے، انہیں سزائیں ملنی چاہئیں، پی ٹی آئی کی قیادت اعلان کرے کہ جو لوگ ملوث ہیں ان کو سزائیں ملیں، جو لوگ ان کو بھڑکانے والے تھے، ان کو بھی سزائیں ملیں، آج مثال قائم کریں، اگر کوئی آدمی بچوں کو بھڑکا رہا ہے تو سزا اس کو بھی ملنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ساری چیزیں خان صاحب کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے، یہ ایک سیاسی جماعت ہے۔
سوال کیا گیا کہ آپ کی سوچ کے حمایت اور لوگ بھی کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ ہیں مگر خوف زدہ تھے، فرنٹ پر آکر کھیلنا بہت مشکل کام ہے۔