پاکستان سمیت دنیا بھر میں قدرتی ماحول کے تحفظ اوردرپیش مسائل اجاگر کرنے کے لیے ماحولیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم ماحولیات پلاسٹک آلودگی کا حل کے عنوان سے منایا جا رہا ہے، یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریبا 20 ملین ٹن فضلہ جمع ہوتا ہے جس میں سے 5 سے 10 فیصد پلاسٹک کا کچرا شامل ہے۔پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے پہلے 10 ممالک میں شامل ہے، موسم گرما میں ہیٹ ویوو ناقابل برداشت تو موسم سرما میں سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، موسمیاتی تبدیلیاں خطے میں کبھی خشک سالی تو کبھی تباہ کن سیلاب کا پیش خیمہ بھی بننے لگیں۔
عالمی ادارے جرمن واچ کے گلوبل کلائیمٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمی تبدیلیوں کے باعث قدرتی آفات کے شکار ممالک میں سر فہرست ہے، سال 2000 سے 2019 تک پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 173 قدرتی آفات رونما ہوئیں، موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان کی جی ڈی پی کے ہر یونٹ پر اعشاریہ 52 فیصد نقصان بھی ہو رہا ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کے جی ڈی پی کا 23 فیصد حصہ زراعت پر انحصار کرتا ہے، موسموں میں شدت فصلوں کی پیداوار پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے، غذائی تحفظ کے لیے کلائیمٹ سمارٹ ایگریکلچر کی جانب جانا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔
ماہر ماحولیات ابرار شنواری کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کیلئے حکومتی سطح پر موثر پالیسیوں کی تشکیل کے علاوہ ہر فرد کو اپنی انفرادی ذمہ داری کا ادراک بھی کرنا ہو گا۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ہے تو نا صرف جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور پانی کے ضیاع کو روکنا ہو گا بلکہ پلاسٹک سمیت آلودگی پھیلانے والے دیگر ذرائع کا تدارک بھی کرنا ہو گا۔