رواں برس فروری میں سگریٹس پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کے بعد غیر قانونی سگریٹس کا شئیر 48 فیصد تک پہنچ گیا۔جبکہ دو ارب سے زائد سگریٹ پیکٹس پر ٹیکس چوری ہو رہی ہے۔ اس بات کا انکشاف غیر قانونی سگریٹس کے حوالے سے بین الاقوامی ادارے ایسوس کی رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سگریٹس کے شعبے میں ٹیکس چوری کے باعث قومی خزانے کو سالانہ 240 ارب نقصان ہو رہا ہے۔
ٹیکس وصولی ٹارگٹ حصول میں کمی کی اہم وجہ غیر قانونی سگریٹ برانڈز کی فروخت میں اضافہ ہے۔ رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا ہے کہ اس وقت 83 فیصد سگریٹ بغیر ٹریک اینڈ ٹریس کے فروخت ہو رہے ہیں۔بین الاقوامی ریسرچ ادارے کی رپورٹ نے غیر قانونی سگریٹس کی مارکیٹ کے حوالے سے مختلف این جی اوز کے دعووں کو مکمل رد کیا ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹ ریسرچ کمپنی ایپساس نے کراچی، لاہور، بہاولپور اور سکھر، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، حیدرآباد، پشاور سمیت پاکستان بھر کے ریٹیل آؤٹ لیٹس سروے کے بعد رپورٹ جاری کی۔تمباکو کی صنعت کے لیے فروری 2023 میں منظور شدہ فنانس سپلیمنٹری ایکٹ میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ حکومت کی جانب سے ٹئیر 1 ایکسائز ریٹس میں 154% اضافہ کیا جبکہ ٹائر II ایکسائز ریٹس میں 146% اضافہ کیا گیا۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اس بے مثال اضافے کے بعد، پاکستان ٹوبیکو کمپنی نے تقریباً 8.73% مارکیٹ شیئر کھو دیا جو کہ 49.73% سے کم ہو کر 41.00% ہو گیا جبکہ فلپ مورس نے 2.18% مارکیٹ شیئر کھو دیا۔ دوسری جانب، گزشتہ 3 ماہ کے دوران فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے بعد سے غیر قانونی سگریٹ کے مارکیٹ شیئر میں 11 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق فیڈرل ایکسائز میں اضافے کی وجہ سے سگریٹ کی غیر قانونی پیداوار اور اسمگلنگ میں 33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر قانونی مصنوعات کی پیداوار، اسمگلنگ اور فروخت پر مؤثر طریقے سے قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان میں سگریٹ کمپنیاں سالانہ 83 ارب سٹکس فروخت کر رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 48 فیصد یا 2 بلین سگریٹ پیک ٹیکس نیٹ سے بچ رہے ہیں۔ ٹیکس کی اس چوری سے قومی خزانے کو سالانہ 240 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ غیر قانونی برانڈز کی طرف صارفین کی مزید منتقلی حکام کو اپنے ٹیکس وصولی کے اہداف سے محروم کر دے گی۔
ایسوس ریسرچ کے نتائج کے مطابق، قانونی سگریٹ برانڈز کا مجموعی مارکیٹ شیئر 52% ہے جس میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی کا 40% حصہ ہے اور فلپ مورس کا اس میں 12% حصہ ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر 48% باقی مارکیٹ شیئر غیر قانونی سگریٹ برانڈز کے پاس ہے۔ مقامی طور پر تیار کردہ ٹیکس چوری کرنے والے برانڈز مارکیٹ میں 50 سے زائد نئے برانڈز کے ساتھ 38 فیصد غیر قانونی مارکیٹ شیئر رکھتے ہیں جبکہ اسمگل شدہ سگریٹ برانڈز کے پاس 48 فیصد غیر قانونی مارکیٹ شیئر میں سے 10 فیصد ہے اور گزشتہ 3 ماہ کے دوران 51 سے زائد نئے اسمگل شدہ برانڈز مارکیٹ میں داخل ہوئے ہیں۔
نان ڈیوٹی پیڈ اور اسمگل شدہ برانڈز حکومت پاکستان کے کسی بھی قانون کی پاسداری کو یقینی نہیں بناتے جس میں گرافکس ہیلتھ وارننگ اور کم عمری کی وارننگ کی پرنٹنگ، ریٹیل قیمت اور مینوفیکچرر کا نام، ٹریک اینڈ ٹریس سٹیمپ کا ذکر اور برانڈ لائسنسنگ کی تعمیل بھی شامل نہیں ہے۔غیر قانونی برانڈز فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور جی ایس ٹی کے قوانین کے مطابق بھی نہیں ہیں۔ مقامی طور پر تیار کردہ ٹیکس چوری کرنے والے برانڈز کا حصہ دیہی علاقوں میں اور بھی زیادہ ہے۔
شہری علاقوں میں، مقامی طور پر تیار کردہ ڈیوٹی چوری والے سگریٹ برانڈز 37% کا مارکیٹ شیئر ہے اور اسمگل شدہ سگریٹس کا شئیر دس فیصد ہے۔ جبکہ دیہی علاقوں میں مقامی طور پر تیار کردہ ٹیکس چوری والے برانڈز کا مارکیٹ شیئر اکتالیس فیصد جبکہ اسمگل شدہ برانڈز کا شئیر 7 ہے۔
قانونی ڈیوٹی ادا کرنے والے برانڈز 127.44 روپے کی کم از کم قانونی قیمت سے زیادہ سگریٹ فروخت کر رہے ہیں جس میں 120.44 روپے فی پیکٹ ٹیکس شامل ہے۔ تاہم، مقامی طور پر تیار کردہ نان ڈیوٹی پیڈ والے سگریٹ اپنے برانڈز کو کم از کم قانونی قیمت 127.44 روپے سے کم فروخت کر رہے ہیں جو بنیادی طور پر نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کو فروغ دینے کا ایک سبب ہے۔سروے کے ذریعے سامنے آنے والے حقائق کے مطابق، سگریٹ کے دو تہائی برانڈز حکومت کی کم از کم قانونی قیمت سے کم فروخت ہو رہے ہیں، جو حکام کی جانب سے قوانین کے نفاذ میں ناکامی کو بے نقاب کرتے ہیں۔ 94 برانڈز کم
از کم قانونی قیمت سے کم فروخت ہوتے پائے گئے جن میں 64 مقامی طور پر تیار کردہ ٹیکس چوری کرنے والے برانڈز ہیں جبکہ 30 اسمگل شدہ برانڈز ہیں۔ مجموعی طور پر مارکیٹ میں دستیاب سگریٹ برانڈز میں سے 61% کم از کم قانونی قیمت سے کم فروخت ہو رہے ہیں۔ سروے میں مقامی طور پر تیار کردہ ٹیکس سے بچنے والے برانڈز، اسمگل شدہ برانڈز اور قانونی ڈیوٹی ادا کرنے والے سگریٹ کے برانڈز کے درمیان قیمتوں میں بہت زیادہ فرق پایا گیا۔
ایپساس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مقامی طور پر تیار کردہ برانڈز پر ٹریک اینڈ ٹریس کا نفاز اب بھی ایک چیلنج ہے کیونکہ 83 فیصد برانڈز کے پاس ٹریک اینڈ ٹریس سٹیمپ نہیں تھے۔ ٹریک اینڈ ٹریس سٹیمپ والے 26 برانڈز ہیں جن میں زیادہ تر دو ملٹی نیشنل مینوفیکچررز پاکستان ٹوبیکو کمپنی اور فلپ مورس کے تھے۔ سروے میں پتہ چلا کہ 128 برانڈز بغیر حکومت کے ٹریک اینڈ ٹریس سٹیمپ کے فروخت کیے جا رہے ہیں۔