وفاقی حکومت نے ملک بھر میں دکانیں، کمرشل ایریاز رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت ہونے والے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے توانائی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ایک بار پھر 10 لاکھ بیرول یومیہ پیداوار کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ سال کے اخر تک تیل کی قیمتیں ایک بار پھر 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم فیوسل فیول اور تیل کے اوپر انحصار کریں گے تو ہماری معیشت اسی طرح خطرات میں گھری رہی گی تو حکومت کوشش کر رہی ہے کہ دو طرح کے اقدامات کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اقدام یہ ہے کہ ہم توانائی کی بچت کریں اور اس کے لیے آج جو کابینہ نے پیکج منظور کیا تھا کہ انرجی کو بچانے کے لیے دکانوں اور کمرشل سینٹرز کو رات 8 بجے بند ہونا چاہیے، اسی طرح جو لائٹس ہیں، جو پرانے بلب ہیں، ان کو ختم کرکے ایل ای ڈی لائٹس کا استعمال کیا جائے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اسی طرح جو گیزرز ہیں، ان کی صلاحیت کو بڑھایا جائے، یہ وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے ہم سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت کرسکتے ہیں، کابینہ نے اس حوالے سے فیصلہ کیا تھا لیکن اس میں صوبائی حکومتیں شریک نہیں تھیں تو آج این ای سی میں ہم اسے دوبارہ اس لیے لے کر گئے کہ وہاں اجلاس میں صوبائی حکومتیں بھی شریک تھیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ اب ہم امید کرتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں توانائی بچت کا جو پیکج منظور ہوا ہے، اس پر عمل در آمد کروائیں گی اور ہم اپنے ملک کے لیے توانائی کی بچت میں اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ قیمتی ذرمبادلہ کو بچایا جاسکے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ دیکھیں امریکا، یورپ جیسے بڑے بڑے ممالک جو ہم سے بہت زیادہ خوشحال ہیں، ہم سے بہت زیادہ امیر ہیں، وہ بھی دس دس، گیارہ گیارہ، بارہ، بارہ بجے تک کمرشل ایریا کھولنے کی عیاشی وہ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ یورپ میں جائیں تو وہاں بھی 6 بجے، 6 بجے نہیں تو حد ہے کہ 8 بجے تک تمام کمرشل ایریاز بند ہوجاتے ہیں، اسی طرح آپ چین چلے جائیں، ملائیشیا، انڈونیشیا میں چلے جائیں، کوئی ہماری طرح کی غیر ذمے دارانہ طرز زندگی نہیں اپناتا کہ جس میں آپ رات ایک ایک، دو، دو بجے تک تمام تجارتی مراکز کھلے رکھیں اور اپنے ملک کا قیمتی زر مبادلہ اپنی دکانوں میں بلبوں کی صورت میں چلائیں۔