وفاق میں براجمان حکمران اتحاد کے اہم رہنما، سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نےملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ایک بار پھر ’چارٹر آف اکانومی‘ پر اتفاق کرنے کے مطالبے کو دہرایا ہے۔
ماضی قریب میں میثاق معیشت کےبارے میں موجودہ حکومت، خاص طور پر وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ سال بجٹ سے قبل بات کی تھی جب کہ اس وقت کامیاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی معزولی کے بعد ان کو اقتدار میں آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔
میثاق معیشت کا مقصد تمام اسٹیک ہولڈرز کے تعاون کے ساتھ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ایک فریم ورک بنانا ہے۔
آصف زرداری نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں خطاب کے دوران آج پھر اس کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا جہاں معیشت سے متعلق مختلف امور زیر بحث آئے۔
ملک کی برآمدات دوہرے ہندسے تک بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی مدد کے بغیر 200 ارب کی برآمدات کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے پاس تمام وسائل موجود ہیں، ہم سب یہ خود اپنے طور پر کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کے بڑے تاجر اکٹھے ہوں، صنعتوں کا انتخاب کریں اور گروپ بنائیں، آپ انہیں بنائیں اور اپنی جیب سے سرمایہ کاری کریں، ہم ضمانت دیں گے، ہم قرضوں کی ضمانت دیں گے، ہم آپ کی سرمایہ کاری کی ضمانت دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ معیشت 5، 10 یا 15 سال کی بات نہیں ہوتی، یہ ہمارے بچوں کے لیے ہے، یہ آنے والی نسلوں کے لیے ہے۔
آصف زرداری نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم سیاست دان پالیسیاں بناتے ہیں، ہم ممالک یا کاروبار نہیں چلاتے، یہ کام تاجر برادری کا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں کہیں بھی سب کچھ پبلک سیکٹر نے نہیں بلکہ نجی شعبے نے بنایا ہے۔
اس موقع پر سابق صدر نے کہا کہ انہوں نے ماضی میں پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے سربراہ کو بھی کہا تھا کہ ہمارے ساتھ جو بھی ظلم و جبر کرنا ہے، کرو، میں تو ان دنوں گھر کے بجائے جیل میں ہی ہوتا تھا، ان کو کہا کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا تاھ وہ اہم نہیں تھا کیونکہ افراد کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ملک اہم ہے۔
میں نے انہیں کہا کہ ہمارے ساتھ چارٹر آف اکانومی پر بات کرنے کے لیے بیٹھیں، آئیے ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں کیونکہ آپ نے بھی اور میں نے بھی ایک دن مر جانا ہے لیکن آئیے بیٹھ کر اپنی ذات سے آگے بڑھ کر سوچتے ہیں اور صرف پانچ سال، 10 سال یا 15 سال کے لیے نہیں آنے والی نسلوں کے لیے بیٹھتے ہیں۔
اپنے خطاب کا اختتام کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں اجتماعی طور پر سوچنا ہوگا، کاروباری حضرات کو اجتماعی طور پر سوچنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آپ سب کو میثاق معیشت بنانا ہوگا، اگر آپ یہ کرتے ہیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں، اگر آپ یہ نہیں کرتے تو ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔
آصف زرداری کی جانب سے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب کہ پاکستان ان دنوں سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کا شکار ہے، کئی مہینوں سے ادائیگیوں کے شدید عدم توازن میں پھنسا ہوا ہے، اس کے مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر اس حد تک کم ہو گئے ہیں کہ ایک ماہ کی کنٹرول شدہ درآمدات کو ہی بشمکل پورا کرنے کے قابل ہیں۔
ملک کو ڈیفالٹ کے خدشات کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ اس کی کم ہوتی ترسیلات زر اور زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جب کہ 6 ارب 50 کروڑ ڈالر قرض پیکج میں سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے میں بھی طویل تاخیر کا سامنا ہے۔
حکومت جو رواں ہفتے بجٹ پیش کرنے والی ہے، وہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ مالیاتی ایڈجسٹمنٹ اور نومبر کے اوائل میں ہونے والے قومی انتخابات سے قبل لوگوں کو کسی قسم کا ریلیف دینے کی کوشش کے درمیان پھنس گئی ہے۔