بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں تازہ ترین جھڑپوں میں مزید 9 ہلاک ہوگئے ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق پولیس نے تازہ ترین ہلاکتوں کی تصدیق کی جب کہ سیکیورٹی فورسز نے غیر قانونی ہتھیاروں کو تلاش کرکے ضبط کرنے پر زور دیا۔
مئی کے اوائل میں منی پور میں تشدد اکثریتی قبیلے میتی، جو زیادہ تر ہندو ہیں اور ریاست کے دارالحکومت امپھال کے آس پاس رہتے ہیں، اور ارد گرد کی پہاڑیوں میں بسنے والے عیسائی کوکی قبیلے کے لوگوں کے درمیان تھا۔
فسادات کا آغاز اس وقت ہوا جب میتی قبیلے کو سرکاری ملازمت کے کوٹے اور دیگر مراعات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی جس سے کوکی قبیلے میں شدید اشتعال پھیل گیا۔ اس نے کوکی قبیلے میں طویل عرصے سے یہ خدشہ بھی پیدا کر دیا کہ میتی قبیلے کو بھی ان علاقوں میں زمین حاصل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے جو فی الحال ان کے اور دیگر قبائلی گروہوں کے لیے مختص ہیں۔
میانمار کی سرحد پر واقع ریاست میں وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی کی حکومت ہے جہاں کم از کم 80 افراد ہلاک اور 40ہزار سے زیادہ شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔
ریاستی دارالحکومت امپھال میں سینئر پولیس اہلکار کے شیوکانتا سنگھ نے صحافیوں کو بتایا کہ منگل کو مخالف دھڑوں کے درمیان مسلح تصادم شروع ہوا جو گھنٹوں تک جاری رہا۔
انہوں نے کہا کہ اب تک کم از کم نو افراد کی ہلاکتوں اور 10 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہمیں موصول ہوئی ہیں، صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔
وفاقی سیکیورٹی فورس کو ریاست میں بھیجا گیا ہے اور وہ غیر قانونی ہتھیاروں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
میتی کوکی اور کمیونٹیز کی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے امن بحالی کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کردہ امن کمیٹی میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ریاست منی پور میں قبائلی گروپس میں جھڑپیں اس وقت شروع ہوئی تھیں جب کہ میٹی قبیلے کے افراد کی جانب سے حکومت کی شیڈولڈ قبائل کیٹگری میں شامل کرنے کے لیے احتجاج کیا جا رہا تھا۔
اس کیٹیگری میں جانے کے بعد انہیں سرکاری ملازمتوں اور کالجوں میں داخلوں کا مخصوص کوٹہ فراہم کیا جائے گا جب کہ اقدام کا مقصد اسٹرکچرل عدم مساوات اور امتیازی سلوک کا خاتمہ کرنا ہے۔
بھارت کے شمال مشرق میں نسلی اور علیحدگی پسند گروپوں کے درمیان کئی دہائیوں سے بےامنی دیکھی جارہی ہے، ان واقعات میں ملوث گروہ زیادہ تر خودمختاری یا بھارت سے علیحدگی کے خواہاں ہیں، 1950 کی دہائی سے صرف منی پور میں ہی کم از کم 50 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔
ان تنازعات میں گزشتہ برسوں کے دوران کافی کمی ہوگئی ہے جبکہ بہت سے گروہوں نے نئی دہلی کے ساتھ مزید اختیارات کے لیے معاہدے کرلیے ہیں۔