پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی ہے جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 94 اور 1970 کے رولز غیر مساوی ہے، سیکشن 94 اور رولز کا بھی غیرآئینی قرار دیا جائے، انسداد دہشت گرد عدالتوں کے ملزمان کو عسکری حکام کے حوالے کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیئے جائیں، عسکری حکام کے حراست میں دئیے سویلین کی رہائی کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، عمران خان، پانچوں آئی جیز ، تمام چیف سیکرٹریز، وزارت قانون، داخلہ، دفاع، کابینہ ڈویژن کو فریق بنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ اسلام آباد کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا آج میں نے اپنی طرف سے اپنی مدعیت میں فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام خلاف آئین ہے، ہم مانتے ہیں کہ فوجی عدالتیں پاکستان کے آئین کے تحت نہیں لگ سکتی، اس بارے میں حتمی فیصلہ 1999 میں ہو گیا تھا، عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ فوجی عدالتوں کا سویلین پر مقدمہ چلانے کا کوئی اختیار نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عام عدالتیں جب سزا سناتی ہیں تو انہیں پوری وضاحت لکھنی پڑتی ہیں مگر فوجی عدالتوں کو کوئی دلائل نہیں دینے پڑتے، فوجی عدالتوں میں کوئی اپیل بھی نہیں ، انصاف کا نہ ہونا آئین کے خلاف ہے، فوجی عدالتوں میں وکیل کوئی دلائل نہیں دیتا، جب دلائل ہی نہیں دینے تو کوئی انصاف نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں سول عدالتوں کی طرح اپیل بھی نہیں ہے، فوجی عدالتوں میں معلوم نہیں ہوتا کہ جج نے نتیجے تک پہنچنے کے لیے کیا استدلال استعمال کی، پھر نو مئی کا واقعہ ہوا جو کہ نہایت افسوس ناک تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا لیکن فوجی عدالتیں نو مئی کے واقعات کا ٹرائل نہیں کر سکتی،کسی ایف آئی آر میں 45 لوگوں کے پاس آتشیں اسلحہ نہیں تھا، چاروں آئی جیز کو شاملِ تفتیش ہونا چاہیے، انھوں نے ان لوگوں کو نہیں روکا، جب تک آئی جی کو شامل تفتیش نہیں کیا جاتا تب تک اصل حقائق تک نہیں پہنچا جا سکتا۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ 7 جون 2023 کو فارمیشن کمانڈرز کی میٹنگ ہوئی اور آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں، کور کمانڈر ہاؤس میں قیمتی سامان کا نقصان ہوا، سیکیورٹی کہاں تھی؟ آرمی چیف کو شاید درست مشورہ نہیں مل رہا، کور کمانڈر کے گھر کو آگ لگی اور کوئی وہاں نہیں پہنچا، ہم نے اپنی درخواست میں اس سوال کا جواب مانگا ہے، آئی جی پنجاب بتائیں کہ انہیں کس نے آنے سے روکا، آپ نے ایک جال بچھایا کہ اس میں پھنس جائیں۔
انہوں نے کہا کہ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ بہیمانہ اور بزدلانہ ہے، کوئی پاکستانی ان حملوں کی حمایت نہیں کرتا، جو لوگ اس واقعہ میں ملوث ہیں، ان کو گرفتار ہونا چاہیے، نو مئی کے واقعہ میں ملوث ملزمان کو فوجی عدالتیں سزا نہیں دے سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے پی ٹی آئی چھوڑی، ان کو نا صرف معافی مل گئی بلکہ اگلے دن انہوں نے نئی پارٹی بھی بنا لی، عام سیاسی ورکرز کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ پاکستان 1971 کو پاکستان دو لخت ہوا، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی، ملک میں چار بار آئین معطل ہوا وہ بھی سیاہ دن تھے، لیاقت حسین کے فیصلے کے بعد کوئی فوجی عدالت نہیں لگی، اس کے بعد آرمی پبلک کا افسوس ناک واقعہ ہوا، اس سانحہ کے پیش نظر آئین میں 21ویں ترمیم کی،اس طرح فوجی عدالتیں بحال کی گئیں وہ بھی صرف دو سال کے لیے، دو سال کے بعد یہ محسوس گیا گیا کہ ابھی بہت سے مقدمات کا ٹرائل رہتا ہے، اس لیے دو سال کی توسیع کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کے گھر پر حملے کی مذمت کرتا ہوں۔
وزیر قانون کا یہ بیان 9 مئی کے واقعات میں ملوث مشتبہ افراد پر فوج کے قوانین کے تحت مقدمہ چلانے کے حکومتی فیصلے پر تشویش کے دوران آیا ہے۔
خیال رہے کہ 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جس کے بعد ریاست نے ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔
بعدازں پاک فوج نے 9 مئی کو ’سیاہ باب‘ قرار دیتے ہوئے ملوث افراد کے خلاف متعلقہ قوانین بشمول فوجی قوانین کے تحت مقدمات چلانے کا اعلان کیا تھا۔
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں اس فیصلے کی توسیع کی گئی تھی جبکہ حقوق تنظیموں اور کارکنان نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔
تاہم پی ٹی آئی نے عام شہریوں پر فوجی قوانین کے تحت مقدمات چلانے کے وفاقی حکومت کے فیصلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ماہ وضاحت کی تھی کہ وہ لوگ جنہوں نے سولین تنصیبات و املاک کو نقصان پہنچایا ان کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے اور جنہوں نے عسکری تنصیبات پر حملے کیے ان کے خلاف فوجی قانون کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔
اب تک لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 مئی کے 16 مشتبہ افراد کو فوج کے حوالے کرنے کی منظوری دی ہے اور راولپنڈی کی ایک عدالت نے مزید 8 مشتبہ افراد کے حوالے کرنے کی منظوری دی۔
دونوں مقامی عدالتوں کے احکامات کے دوران وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے جرم میں پنجاب میں 19 اور خیبرپختونخوا میں 14 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جو کہ منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔