لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل عبدالرزاق شر کے قتل کے مقدمے میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی 3 جولائی تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
کوئٹہ میں درج قتل کے مقدمے میں چیرمین پی ٹی آئی کی جانب سے دائر حفاظتی ضمانت کی درخواست پر جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
عمران خان اپنے وکیل اشتیاق اے خان کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے، دوران سماعت اشتیاق اے خان نے درخواستِ ضمانت کے حق میں دلائل دیے جبکہ سرکاری وکیل غلام سرور نہنگ نے درخواست کی مخالفت کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل اشتیاق اے خان نے مؤقف اختیار کیا کہ سیکیورٹی وجوہات کے باعث چیئرمین پی ٹی آئی کوئٹہ نہیں جا سکے، عدالت کوئٹہ کے مقدمے میں حفاظتی ضمانت منظور کرے۔
بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے چیرمین پی ٹی آئی کی 3 جولائی تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔
دریں اثنا لاہور کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ کے 2 مقدمات میں چیرمین پی ٹی آئی کی عبوری ضمانت 7 جولائی تک منظور کرلی۔
عدالت نے ایک، ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے پولیس کو چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری سے روک دیا۔
واضح رہے کہ تھانہ نصیر آباد پولیس اور ماڈل ٹاؤن پولیس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات درج کررکھے ہیں، نصیر آباد پولیس کی جانب سے عمران خان کے خلاف کنٹینر جلانے کا مقدمہ جبکہ ماڈل ٹاؤن پولیس کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے آفس میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا مقدمہ درج ہے۔
گزشتہ روز لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دونوں مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے، عمران خان نے آج مذکورہ کیسز میں درخواستِ ضمانت دائر کی تھیں۔
خیال رہے کہ 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جب کہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔
مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو)کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔
اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی میں 1900 مشتعل مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔