وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اپنے کافی مسائل ہیں اور وہ چین اور امریکا کے درمیان نئی سرد جنگ کا سر درد نہیں چاہتا۔
رپورٹ کے مطابق اس ہفتے واشنگٹن میں مقیم نیوز آؤٹ لیٹ پولیٹیکو کے ساتھ ایک انٹرویو میں حنا ربانی کھر نے کہا کہ اسلام آباد کو واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتی ہوئی عالمی دشمنی کے درمیان کسی ایک فریق کو منتخب کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔
یہ انٹرویو ایک ایسے موقع پر ریکارڈ کیا گیا جب امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو کیلیفورنیا میں ایک سیاسی تقریب کے دوران اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کو آمر کہا، اس تبصرے پر بیجنگ نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ریمارکس بنیادی حقائق سے متصادم، سفارتی آداب کی سنگین خلاف ورزی اور چین کے سیاسی وقار کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہیں۔
واشنگٹن میں سیاسی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ جو بائیڈن کے ریمارکس اور بیجنگ کے ردعمل سے پاکستان جیسے ممالک کے لیے چین اور امریکا دونوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
حنا ربانی کھر کے انٹرویو پر اپنی رپورٹ میں پولیٹیکو نے بھی پاکستان جیسے ممالک کے لیے چین اور امریکا دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے حوالے سے درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔
اخبار نے تبصرہ کیا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس 25 کروڑ افراد کے ملک کی حیثیت ایشیا میں اسٹریٹیجک اثر ورسوخ کے حوالے سے پاکستان ان فرنٹ لائن ریاستوں میں سے جس کو باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
اخبار نے تبصرے میں مزید کہا کہ جب کہ پاکستان کا پرانا سرد جنگ کا ساتھی واشنگٹن تیزی سے اپنی تمام تر توجہ اس کے بدترین دشمن بھارت کے ساتھ تعاون پر مرکوز کر رہا ہے، چین خاص طور پر بڑے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔
تاہم، حنا ربانی کھر نے اصرار کیا کہ امریکا اور چین کے درمیان ہر طرح سے ٹوٹ پھوٹ پاکستان کو یعنی پاکستان دو میں سے کسی ایک فریق کے انتخاب کی مشکل صورتحال سے دوچار کردے گی، دنیا کو دو بلاکوں میں تقسیم کرنے کے اس تصور سے ہمیں بہت خطرہ ہے، کوئی بھی چیز جو دنیا کو مزید تقسیم کرے، ہم اس حوالے سے بہت فکر مند ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کی تاریخ ہے، ہمارا اسے ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، پاکستان کا چین سے قریبی تعاون بھی حقیقت پر مبنی ہے اور یہ ہمیشہ ایسا ہی تھا، یہاں تک کہ ہر کوئی چین کو خطرہ تصور کرنے لگا۔
پولیٹیکو نے یاد دلایا کہ حنا ربانی کھر اپریل میں اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بن گئی تھیں جب وال اسٹریٹ جرنل میں ایک لیک شدہ میمو شائع ہوا تھا جس میں ان کا حوالہ دیا گیا تھا کہ امریکا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو برقرار رکھنے کی پاکستان کی عادت چین کے ساتھ ملک کی ’حقیقی اسٹریٹجک‘ شراکت داری کو نقصان پہنچائے گی۔
سابق وزیر خارجہ نے اس لیک میمو پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا لیکن برسلز میں اپنے انٹرویو دوران انہوں نے کہا کہ امریکا غیر ضروری طور پر خوفزدہ اور دفاعی ہے کہ وہ اسے عالمی قیادت سے محروم کردیا جائے گا حالانکہ یہ صحت، ٹیکنالوجی، تجارت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے شعبوں میں وہ سرفہرست ہی رہے گا۔