فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران حکومت پنجاب نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث زیر حراست ملزمان کا ڈیٹا سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
7 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔
سماعت کے آغاز پر سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے، انہوں نے تحریری دلائل بھی جمع کروائے، علاوہ ازیں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے حکومت پنجاب کی جانب سے 9 مئی کے واقعات میں ملوث زیر حراست ملزمان کا ڈیٹا سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا۔
رپورٹ میں فوج کی حراست موجود ملزمان، نابالغ بچوں، صحافیوں اور وکلا کا ڈیٹا شامل نہیں ہے، تاہم 9 مئی کے واقعات میں ملوث زیرحراست خواتین کا ڈیٹا جمع کروا دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 9 مئی کے واقعات میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا، گرفتار خواتین میں سے 42 کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے، 9 مئی کے واقعات میں ملوث 39 خواتین اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں قید ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایم پی او کے تحت 2258 افراد کی گرفتاری کے آرڈر جاری کیے گئے، 9 مئی کی توڑ پھوڑ کے واقعات میں 3050 افراد ملوث پائے گئے، اس وقت ایم پی او کے تحت 21 افراد جیلوں میں قید ہیں، انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف 51 مقدمات درج کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت 1888 افراد کو گرفتار کیا گیا، 108 ملزمان جسمانی ریمانڈ اور 1247 جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت 33 افراد کی شناخت پریڈ کی گئی، 500 افراد کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کیا گیا، انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت 232 افراد ضمانت پر رہا ہوئے،
رپورٹ میں کہا گیا کہ 9 مئی واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف دیگر قوانین کے تحت 247 مقدمات درج کیے گئے، 247 مقدمات کے تحت 4119 افراد کو گرفتار کیا گیا، 86 ملزمان جسمانی ریمانڈ، 2464 کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا گیا، دیگر مقدمات میں 368 افراد کی شناخت پریڈ کی گئی، اب تک 1201 افراد کو بری کیا گیا ہے، 3012 افراد کو مختلف مقدمات میں ضمانت پر رہا کیا گیا۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے، میں اس پر دلائل نہیں دوں گا کہ سویلین کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا، یہ بھی نہیں کہیتا کہملٹری کورٹس کے زریعے ٹرائل سرے سے ڑیر قانونی ہے، میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ 9 مئی کو کیا ہوا کیا نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سویلین کے ٹرائل کی ماضی میں مثالیں ہیں، فوجی عدالتوں میں فوج داری ضابطے کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی ، اس کو چیلنج نہیں کیا، میں نے کسی ملزم کی بریت کو چیلنج نہیں کیا، فوج کے حوالے ملزمان کو کرنے کے عمل میں مخصوص افراد کو چنا گیا، آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، عدالت میں جا کر کہا گیا مجھ میں لوگ 15 لوگوں کو حوالے کر دیں، جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہو گا ان کو اپیل کا حق ملے گا، جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہو گا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ میرا مدعا تمام ملزمان میں سے چند کے ساتھ الگ سلوک ہوا، ایک ایف آئی آر میں ساٹھ ملزمان ہیں تو پندرہ ملٹری کورٹس کو دیے جاتے ہیں، ایف آئی آر میں جو الزامات ہیں ان پر تین الگ طرح کے ٹرائل ہو سکتے ہیں، میرا دوسرا نقطہ فیئر ٹرائل کا ہے، ایک الزام پر ٹرائل کے بعد کچھ لوگوں کے پاس اپیل کا حق ہو گا اور کچھ کے پاس نہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں، 1998 میں ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلہ آیا، ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟ کون سے ایے مخصوص حالات ہیں جن میں ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟
فیصل صدیقی نے لیاقت حسین، سعید زمان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے یہ کہتے ہیں کہ واضح تفریق ہونی چاہیے، ہم نہیں کہتے کہ لوگوں کا سخت ٹرائل نہ ہو، انسدادِ دہشت گردی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کہاں ہو سکتا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ جو آپ کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں، 9 مئی کے واقعات کے مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل کی بنیاد یہ ہے کہ کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیشنل سیکیورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا، اسٹیٹ سیکیورٹی کے حدود میں جائیں گے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے۔
جسٹس مظاہر اکبر نقوری نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو کب شامل کیا گیا؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ آپ نہیں سمجھتے کہ پہلے اٹارنی جنرل سے پوچھا جائے کہ مقدمات کیسے بنے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ دلائل جاری رکھیں وکلا کے بعد اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہو سکتا ہے اٹارنی جنرل کل مانگی گئی نفصیلات پر آج بیان ہی دیںْ
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ کل عدالت نے پوچھا تھا کہ یہ درخواستیں پہلے ہائی کورٹ میں نہیں جانی چاہیے تھیں، ایک سے زیادہ صوبوں کا معاملہ ہے ایک ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بن سکتا، یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابلِ سماعت ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا درخواستیں کے قابلِ سماعت ہونے کی حد تک آپ کے دلائل مکمل ہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے تک دلائل مکمل ہیں اب آگے چلتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے جن لوگوں کو ملٹری کورٹس کے حوالے کیا گیا ان پر الزامات کی نوعیت الگ ہو، آپ صرف مفروضہ پر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کیخلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ عمومی بحث پر جا رہے ہیں یہ بھی علم نہیں ان لوگوں کو کس کس شق کے تحت ملٹری کورٹس بھجا گیا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ فرض کریں ان کے خلاف شواہد بھی موجود ہیں تو دکھاؤں گا کہ انہیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھجا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپنے دلائل کے متعلقہ نکات تک محدود رکھیں، آج کا دن درخواست گزاروں کے لیے مختص ہے، بے شک 3 بجے تک دلائل دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ملٹری کے اندر کام کرنے والے بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ کار ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقے عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ آپ ابھی تک بنیادی پوائنٹ ہی نہیں بتا سکے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں؟ اگر ایف آئی آر میں افیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ سے 2 سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں، آپ طریقہ کار بتائیں کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہو گا، آرمی کے اندر ایسے فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ یہی تو میری دلیل ہے کہ فوج سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کوئی دستاویزات تو دکھا دیں جس کی بنیاد پر سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی قانون میں ہے کہ اگر فوج سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرتی ہے تو ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے کب سویلینز کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی منظوری دی؟
جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا سیکشن 13 نہ پڑھائیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ مسئلہ فورم طے کرنے کا ہے کہ کہاں ٹرائل ہوگا، اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کا فورم کیسے طے ہوتا ہے یہی سوال ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کسی کی گرفتاری کیلئے آنے سے پہلے فوج اپنے گھر پر کیا تیاری کرتی ہے یہ بتا دیں، فوج کو جب کوئی شخص مطلوب ہو تو وہ کس طریقے کار کے تحت حوالگی کا مطالبہ کرتی ہے، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ میں شکایت یا ایف آئی آر کا کوئی طریقہ کار نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ایک کمانڈنگ افسر جب میجسٹریٹ کے پاس جاتا ہے تو کس بنیاد پر جا کر بندہ مانگتا ہے؟
فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کریمنل پروسیجر کی سیکشن 549 میں اس کا جواب ہے، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر 549 میں اس کا جواب نہ ہوا تو جرمانہ ہو گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیکرٹ ایکٹ لگانے کے لیےکوئی انکوئری یا انوسٹیگیشن تو ہونی چاہیے، کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے، فوج انسداد دہشتگردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دائر کر سکتی ہے، فوج کی سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شوائد پر ہوئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لیا جاتا ہے؟ فیصل صدیقی ن جواب ی افشیل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق تو پھر سول عمارات پر بھی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وہ زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا، آپ ان مقدمات میں طریقہ کار کا بتائیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا آرمی ایکٹ کو رہنے دیں طریقہ کار کو دیکھیں، پھر تو ہمیں انفرادی طور پر ایک ایک شخص کی گرفتاری کا معاملہ دیکھنا پڑے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ایسا کریں کہ بریک لے لیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس کافی وغیرہ پئیں، سوالات کے جوابات نہ دینے پر آپ کو جرمانہ دینا پڑے گا۔
دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کر دیا، وقفے کے بعد فیصل صدیقی نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ٹرائل کیسے شروع ہوتا ہے،اس کا جواب آرمی رولز 1954 میں موجود ہے، رول 157 کی سب سیکشن 13 میں طریقہ کار درج ہے، یہاں 9 اور 10 مئی کو واقعات ہوتے ہیں اور 25 مئی کو حوالگی مانگ لی جاتی ہے، یہاں تو ہمیں حقائق میں جانے کی ضرورت بھی نہیں، ملزمان کی حوالگی مانگنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔
چارج سے پہلے انکوائری کا ہم اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے،جسٹس منصور علی شاہ
خیال رہے کہ مذکورہ درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے 9 رکنی بینچ نے گزشتہ روز سماعت کا آغاز کیا تھا، تاہم دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔