پاکستان نے 308 بھارت قیدیوں کی فہرست جس میں 266 ماہی گیر اور 42 دیگر شہری جیلوں میں بند ہیں، ہفتہ کو بھارت کے ہائی کمیشن کے حوالے کر دی۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ساتھ بھارتی جیلوں میں قید 417 پاکستانی قیدیوں کی فہرست بھی شیئر کی، جن میں 74 ماہی گیر اور 343 دیگر شہری شامل ہیں۔
پاکستان اور بھارت نے دو طرفہ معاہدے کے تحت ایک دوسرے کی تحویل میں موجود شہریوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا۔
اس ضمن میں دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’بھارت کی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ان تمام پاکستانی شہری قیدیوں اور ماہی گیروں کو رہا کرے اور وطن واپس بھیجے جنہوں نے اپنی متعلقہ سزا پوری کر لی ہے اور ان کی قومی حیثیت کی تصدیق ہو چکی ہے۔‘
پاکستان اور بھارت ہر سال یکم جنوری اور یکم جولائی کو ایک دوسرے کی تحویل میں قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں، یہ تبادلہ قونصلر رسائی کے معاہدے کے تحت ہوتا ہے جس پر 21 مئی 2008 کو دستخط ہوئے تھے۔
رواں سال جنوری میں پاکستان میں بھارتی قیدیوں کی تعداد 705 تھی جو اب کم ہو کر 308 رہ گئی ہے جبکہ بھارتی جیلوں میں بند پاکستانی قیدیوں کی تعداد میں سال کے اوائل سے زیادہ تبدیلی نہیں آئی اور 434 سے معمولی کم ہو کر 417 ہوگئی ہے۔
198 بھارتی قیدیوں کو رہا کرنے کے تقریباً تین ہفتوں بعد پاکستان نے مزید 200 بھارتی ماہی گیروں کو رہا کر کے واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کر دیا تھا۔
پاکستان سے مئی اور جون میں 400 بھارتی قیدیوں کی رہائی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بھارتی ریاست گوا کے دورے کے بعد ہوئی، جہاں انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل میں شرکت کی اور 5 مئی کو دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔
پاکستان نے اپنی جیلوں میں قید 600 بھارتی ماہی گیروں کو اس وقت رہا کرنے کا فیصلہ کیا جب بلاول بھٹو زرداری بھارت جانے کا ارادہ کر رہے تھے۔
بہت سے لوگوں کو ان کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید تھی تاہم یہ دورہ بھارتی وزیر خارجہ کی بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان کے خلاف برہمی کے ساتھ ختم ہوا۔
تاہم پاکستان نے پھر بھی 198 ماہی گیروں کی پہلی کھیپ کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر 11 مئی کو رہا کیا جس کے بعد 200 ماہی گیروں کی دوسری کھیپ کو 2 جون کو رہا کیا گیا تھا اور مزید 200 ماہی گیروں کی تیسری کھیپ کو رواں ہفتے رہا کیے جانے کا امکان ہے۔