پاکستان کو آئندہ مالی سال کے لیے 12؍ جولائی کو آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ اجلاس سے قبل گیس کی قیمت فروخت میں 45؍ تا 50؍ فیصد اور بجلی کے نرخ میں ساڑھے تین سے چار روپے فی یونٹ تک اضافہ کرنا ہوگا۔ مذکورہ اضافہ اسٹاف سطح پر آئی ایم ایف سے متفقہ تین ارب ڈالرز کے اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ (ایس بی اے) کی راہ ہموار کرے گا۔ یہ بات وزارت توانائی کے ایک سینئر افسر نے بتائی۔ اوگرا نے گزشتہ 2؍ جون کو سوئی ناردرن گیس پائپ لائن (ایس این جی پی ایل) کے صارفین کے لیے قیمت میں 50؍ فیصد اضافے (415؍ روپے 11؍ پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو) کا اعلان کیا تھا جس سے قیمت بڑھ کر 1238.68روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہوگئی جب کہ سوئی سدرن گیس (ایس ایس جی سی ایل) کے صارفین کے لیے قیمت میں 45؍ فیصد اضافہ (417.23) فی ایم ایم بی ٹی یو طے کیا گیا۔
تاہم حکومت کی جانب سے اس اضافے کی توثیق ابھی باقی ہے۔ سوئی ناردرن گیس کو اب بھی 560؍ ارب 37؍ کروڑ روپے سے زائدخسارے کا سامنا ہے، توقع ہے حکومت اپنی گزشتہ پالیسی کوجاری رکھتے ہوئے زیادہ گیس استعمال کرنےو الے صارفین کوزیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی جس کا یکم جولائی سے اطلاق طے ہے۔ مذکورہ افسر کا کہنا ہےکہ پورے شعبہ توانائی کے گردشی قرضے کا حجم 4300؍ ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس میں 1700؍ ارب روپے تیل و گیس اور 2600؍ ارب روپے بجلی کے شعبے کے ہیں۔
آئی ایم ایف کا رواں مالی سال کے لیے ٹیرف میں مناسب اضافے پر نیپرا کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کا اعلان جلدمتوقع ہے تاہم ٹیرف میں پریشان کن بات بیس ٹیرف میں استعدادی چارجز میں گزشتہ مالی سال کے 57؍ کے مقابلے میں 63؍ فیصد اضافہ ہے، اس طرح صارفین کوا س مد میں 1.3 سے 1.5 ٹریلین روپے ادا کرنے ہوں گے۔
آئندہ سال یہ رقم بڑھ کر 2.5 ٹریلین روپے ہوجائے گی۔ اس وقت ملک میں بجلی کی پیداواری استعداد 44000؍ میگاواٹ ہے لیکن اقتصادی سروے میں 41؍ہزار میگاواٹ بتائی گئی ہے۔ نیپرا نے بنیادی ٹیرف 24.80 روپے فی یونٹ مقرر کیاتھا، اگر اس میں مطلوبہ اضافہ شامل کرلیا جائے تو آئندہ مالی سال کے اختتام تک ٹیرف 29؍ روپے فی یونٹ ہوجائے گا اس وقت پاور سیکٹر ناقابل برداشت ہوچکا ہے جس کا گردشی قرضہ 2.5 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے اور حکومت پاور ہاؤسز کو ادائیگی سےمعذورہے۔ اس کی بڑی وجوہ میں لائن لاسز کم وصولیوں اور نامناسب بجٹ سبسڈی کو شمار کیا جاتا ہے۔