سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف آئینی درخواستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ نے 22 جون کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔9 رکنی بینچ کے آرڈر پر 7 ججز نے دستخط کیے اور تحریری حکم کے ساتھ ویب سائٹ سے ہٹایا گیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نوٹ بھی شامل ہے۔
جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ چیف جسٹس کو 17مئی کو 5 صفحات پر مشتمل جواب ارسال کیا، نشاندہی کی کہ مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ کی تشکیل چیف جسٹس اور 2 سینئر ججز پرمشتمل کمیٹی کریگی، اس قانون پر عمل نہیں کیا گیا کیونکہ عدالت عظمٰی نے قانون کو جنم لینے سے پہلے ہی معطل کردیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معزز چیف جسٹس نے مجھے ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے، مخمصے سے اسی وقت نکلا جاسکتا ہے جب اس قانون کے خلاف درخواستوں پرفیصلہ کریں یا حکم امتناع واپس لیں۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تمام ضروری معاملات اپنی مرضی یا چیدہ اہلکاروں کےذریعے چلائے، ججوں کی فل کورٹ میٹنگ تو نہ بلائی لیکن درخواست گزاروں اور ان کے وکلا کو ترجیح دی، ایکٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنےوالے بینچ کی سربراہی چیف جسٹس کررہے ہیں، پوری قوم کی طرح میں بھی منتظر ہوں فیصلہ جلد ہو۔
تحریری حکم نامے کے ساتھ جسٹس سردار طارق مسعود کا نوٹ بھی جاری کردیا گیا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود کے نوٹ میں کہا گیا ہےکہ چیف جسٹس سویلین کے فوجی ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیں۔
نوٹ میں کہا گیا ہےکہ سویلین کے فوجی ٹرائل کیخلاف درخواست گزار وکیل کے ساتھ چیف جسٹس کو ملا، چیف جسٹس سے چیمبر میں ملاقات کے اگلے روز مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ بینچ کی تشکیل کے حوالے سے کوئی مشاورت بھی نہیں کی گئی، پوچھا کہ کیا سالوں سے زیر التوا مقدمات میں درخواست گزاروں کو چیف جسٹس سے ملنے کی اجازت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس اس وجہ سے سنا کہ 5 رکنی بینچ اسے قابل سماعت قرار دے چکاتھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نےنوٹ میں کہا کہ کچھ عرصے سے بینچ کی تشکیل کے لیے متواتر ایک مخصوص پیٹرن نظر آرہا ہے، چند معزز ججز کے اسپیشل بینچ بنائے گئے، فل کورٹ کی عدم تشکیل سے اس عدالت کی اتھارٹی اور فیصلوں کی قانونی حیثیت متاثرہورہی ہے، حالیہ معاملے کی آئینی حیثیت اعلیٰ ترین عدالتی جانچ کا تقاضا کرتی ہے