سویڈن کی حکومت اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ کیا وہ قرآن پاک یا دیگر مقدس کتابوں کی بے حرمتی کرنے اور انہیں نذر آتش کرنے کے فعل کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے یا نہیں جب کہ حالیہ واقعات نے سویڈن کی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ بات سویڈن کے وزیر انصاف گونر اسٹرومر نے افٹن بلیڈیٹ پیپر سے گفتگو کرتے ہوئے کی۔
گزشتہ دنوں سویڈن میں ایک عراقی تارک وطن نے اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کی، اس واقعہ پر مسلم دنیا میں غم و غصے کی لہر پھیل گئی اور پوپ کی جانب سے بھی اقدام کی مذمت کی گئی، سویڈش سیکیورٹی سروسز نے کہا کہ اس طرح کی کارروائیوں سے ملک کے تحفظ اور سلامتی میں کمی ہوئی۔
پولیس نے رواں برس کے اوائل میں سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے احتجاجی مظاہروں کی اجازت کے لیے دی گئی متعدد درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا جب کہ ان درخواستوں میں احتجاج کے دوران قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت بھی طلب کی گئی تھی لیکن بعد ازاں عدالتوں نے پولیس کے ان فیصلوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس طرح کی کارروائیوں کو سویڈن کے آزادی اظہار رائے کے قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
لیکن گزشتہ روز ملک کے وزیر انصاف نے کہا کہ حکومت صورتحال کا تجزیہ کر رہی ہے اور اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ کیا قانون میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا کہ کیا موجودہ آرڈر اچھا ہے یا ہمیں اس پر دوبارہ غور کرنے کی کوئی وجہ ہے۔
گونر اسٹرومر نے افٹن بلیڈیٹ پیپر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا سویڈن حملوں کا ’ترجیحی ہدف‘ بن گیا ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے کے واقعے نے ہماری داخلی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں۔