پاکستان، ازبکستان اور افغانستان آج ازبک ریل نیٹ ورک کو پاکستان ریلوے سے منسلک کرنے کے لیے ایک مشترکہ پروٹوکول پر دستخط کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق اس ریلوے سروس کا راستہ ازبکستان میں ترمیز اور افغانستان میں مزار شریف اور لوگر سے ہوتا ہوا پاکستان میں خرلاچی بارڈر کراسنگ سے ہوکر کرم میں اختتام پذیر ہوگا۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں ازبکستان-افغانستان-پاکستان (یو اے پی) ریلوے پروجیکٹ پر تینوں ممالک کے سہ فریقی ورکنگ گروپ کے اجلاس میں اس روٹ کو حتمی شکل دی گئی، رواں برس جنوری کے بعد ورکنگ گروپ کا یہ دوسرا اجلاس تھا۔
وزارت ریلوے نے اجلاس کے بعد ایک اعلان میں کہا کہ یو اے پی ریلوے پروجیکٹ نہ صرف شریک ممالک کے درمیان علاقائی، ٹرانزٹ اور دو طرفہ تجارت کو آسان بنائے گا بلکہ تینوں ممالک کے عوام کے درمیان بہتر روابط بھی فراہم کرے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ ریلوے لائن مسافر اور مال بردار سروس دونوں کو سپورٹ کرے گی اور علاقائی تجارت اور اقتصادی ترقی میں معاون ثابت ہوگی۔
چیئرمین پاکستان ریلوے سید مظہر علی شاہ نے پاکستانی وفد کی قیادت کی جبکہ افغان وفد کی قیادت افغانستان ریلوے اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل الحاج بخت الرحمٰن شرافت اور ازبکستان کی جانب سے وزارت سرمایہ کاری، صنعت و تجارت کے شعبہ ٹرانسپورٹ کے سربراہ ڈیورن دیخانوف نے نمائندگی کی۔
تینوں ممالک نے اس منصوبے کے جلد نفاذ کے لیے تکنیکی مطالعے، مالیاتی ذرائع اور دیگر اہم پہلوؤں کے لیے ایک روڈ میپ پر بھی اتفاق کیا، انہوں نے منصوبے کے حتمی روٹ اور اس کے نفاذ کے طریقوں پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں تینوں ریلوے نیٹ ورکس کے ماہرین کے پیشہ ورانہ کام کو سراہا۔
ازبکستان کا اندازہ ہے کہ 760 کلومیٹر طویل ریل روڈ سے ازبکستان اور پاکستان کے درمیان کارگو کی ترسیل کے اوقات میں تقریباً 5 روز کی کمی آجانے کی توقع ہے، ساتھ ہی سامان کی نقل و حمل کی لاگت میں بھی کم از کم 40 فیصد تک کمی آجائے گی۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ منصوبہ 2027 کے آخر تک مکمل ہو جائے گا اور ٹرینیں 2030 تک سالانہ ڈیڑھ کروڑ ٹن تک سامان لے جانے کے قابل ہوجائیں گی۔
تینوں ممالک پہلے ہی 573 کلومیٹر طویل ٹرانس افغان ریلوے کی تعمیر کے لیے ایک روڈ میپ اسٹریٹجک منصوبے پر دستخط کرچکے ہیں جو وسطی ایشیا کو بحیرہ عرب کی بندرگاہوں سے جوڑے گا۔
معاہدے میں روٹ اور اس کے علاقے کا سروے کرنے کے لیے مشترکہ مہم چلانے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کے لیے ابتدائی فزیبلٹی اسٹڈی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
پاکستان پُرامید ہے کہ اس روٹ کی تکمیل وسطی ایشیا کو پاکستان کی 23 کروڑ آبادی کے قریب لے آئے گی اور بحیرہ عرب کے ممالک کے ساتھ تجارت کے مواقع پیدا ہوں گے۔