ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت ہونے سے متعلق درخواست مسترد کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کو 3 سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنادی۔
توشہ خانہ کارروائی کیس کی سماعت 3 مرتبہ وقفے کے بعد شروع ہوئی، عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوتا ہے، ملزم نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات جمع کرائیں، ملزم کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب پائے گئے ہیں، ملزم نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات دیں۔
جج ہمایوں دلاور نے فیصلہ سنایا کہ ملزم کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 174 کے تحت 3 سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے، ملزم آج عدالت میں پیش نہیں ہیں، فیصلے کی کاپی آئی جی اسلام آباد کو عملدرآمد کے لیے بھجوائی جائے۔
قبل ازیں آج صبح سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکلا امجد پرویز اور سعد حسن عدالت میں پیش ہوئے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی وکیل عدالت میں پیش نہ ہوا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے کسی کے پیش نہ ہونے پر جج نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ کیا کچھ کہیں گے؟ کوئی شعر و شاعری ہی سنا دیں، امجد پرویز نے جواب میں شعر کہا ’وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا، اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا‘۔
بعدازاں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کو ساڑھے 10 بجے تک کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
بعد ازاں کیس کی سماعت جب دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر گوہر کے معاون وکیل خالد چوہدری عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث نیب کورٹ میں مصروف ہیں، خواجہ حارث بس آ ہی رہے ہیں۔
جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ کیس بتائیں، کس کیس میں خواجہ حارث مصروف ہیں؟ خالد چوہدری نے جواب دیا کہ احتساب عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہے۔
جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ ان کی وہاں کیا مصروفیات ہیں، کیا وہ ضمانت کی درخواستوں پر دلائل دے رہے ہیں؟ خالد چوہدری نے جواب دیا کہ خواجہ حارث دلائل نہیں دے رہے، وہاں موجود ہیں، جیسے ہی وہاں سے فارغ ہوں گے، یہاں پیش ہو جائیں گے۔
جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ اگر خواجہ حارث پیش نہیں ہوتے تو کیا صورتحال ہوگی؟ گزشتہ روز کے آرڈر میں پیشی کی واضح ہدایات تھیں، ایسی صورتحال میں تو ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ہیں، عدالت کیس کی سماعت 12 بجے تک ملتوی کرتی ہے، خواجہ حارث 12 بجے ہیش ہوں ورنہ فیصلہ محفوظ کرلیا جائے گا۔
تیسرے وقفےکے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے، جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ کوئی پیش ہوا یا نہیں؟
عدالت نے کہا کہ چوتھی سماعت میں بھی خواجہ حارث عدالت پیش نہیں ہوئے، میں فیصلہ محفوظ کرتا ہوں، ساڑھے 12 بجے سناؤں گا۔
بعدازاں سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث عدالت پہنچ گئے۔
جج ہمایوں دلاور نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت ہونے سے متعلق درخواست مسترد کردی۔
انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوتا ہے، ملزم نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات جمع کرائیں، ملزم کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب پائے گئے ہیں، ملزم نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات دیں۔
جج ہمایوں دلاور نے فیصلہ سنایا کہ ملزم کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 174 کے تحت 3 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے، ملزم آج عدالت میں پیش نہیں ہیں، فیصلے کی کاپی آئی جی اسلام آباد کو عملدرآمد کے لیے بھجوائی جائے۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔
گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔
فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔