نیب ترامیم کو پارلیمان کے ایک بھگوڑے سیاستدان نے چیلنج کیا ،جسٹس منصور علی شاہ

اسلام آباد(سی این پی) چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ نیب ترامیم میں بہت سے جرائم یا تو ختم کردئیے گئے یا تبدیل کردئیے گئے، نیب ترامیم سے کچھ جرائم کو ثابت کرنا انتہائی مشکل بنا دیا گیا نیب قانون میں کئی خامیاں ہیں اور اس کا اطلاق بھی درست انداز میں نہیں کیا گیا۔

اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے جس پر چیف جسٹس نے انہیں گڈ ٹو سی یو کہا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے حوالے سے ایک خبر میں کہا گیا کہ میں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں خامیوں کو تسلیم کیا ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو عدالتی حکم کا حصہ ہے تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں عدالت کے سامنے متعلقہ حکم پڑھنا چاہتا ہوں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے کہا تھا پریکٹس اینڈ پروسیجراور نظرثانی ایکٹ”اوورلیپ“ کرتے ہیں، میرے سامنے اخبار ہے جس میں مجھ سے منسوب بات چھپی، خبر کے مطابق مجھ سے منسوب کیا گیا کہ میں نے نقائص تسلیم کیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا کہ انگریزی اخبارات میں خبر رپورٹر کے نام سے شائع کیوں نہیں کی جا رہیں؟ معلوم نہیں کیا یہ کوئی سنسر شپ کا نیا طریقہ آیا ہے؟ کچھ ترامیم بہت ذہانت کے ساتھ کی گئیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ نے تو تسلیم کیا قوانین میں مطابقت نہیں، جو قانون سازی کی گئی اس سے چیف جسٹس پاکستان کو ربڑ اسٹمپ بنا دیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے دیکھا اگست میں پارلیمنٹ قانون سازی کیلئے بہت متحرک رہی، پریکٹس اینڈ پروسیجر اور ری ویو ایکٹ پر نظرثانی پارلیمنٹ کی ترجیحات میں نہیں تھی، اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ کی وضاحت کو تسلیم کرتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمان ری ویو ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی منتظر تھی اس پر چیف جسٹس نے اعتراض کیا اور کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ کی ہر بات مانیں گے مگر یہ بات تسلیم نہیں کریں گے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے نیب سے ترامیم کے بعد منتقل ہونے والے مقدمات کی فہرست طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب پہلے دسمبر اور جنوری میں بھی فہرست دے چکا ہے ہمیں اب تک کی اَپ ڈیٹ فہرست فراہم کی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ پورے قانون کو بے ترتیب کردیا گیا، درخواست گزار نے احتساب کے معیار کیلئے کچھ اسلامی مثالیں دی ہیں، احتساب جمہوری عمل کی بنیاد ہے، پانچ سال کے بعد ووٹنگ ہونا بھی احتساب کا عمل ہے، اس کیس میں بہت سے جرائم یا تو ختم کردئیے گئے یا تبدیل کردئیے گئے ترامیم کے ذریعے شواہد کے طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شواہد کے عمل کو بہت مشکل بنا دیا گیا، نیب ترامیم کے ذریعے استثنیٰ بھی دیا گیا، ترامیم سے 50 کروڑ کی حد مقرر کی گئی، ترامیم سے ختم ہونے والے جرائم دوسرے قوانین میں ا?ج بھی جرائم ہی ہیں، نیب ترامیم سے کئی جرائم کو ختم کیا گیا کچھ کی نوعیت تبدیل کی گئی، نیب ترامیم سے کچھ جرائم کو ثابت کرنا انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے، کم سے کم حد پچاس کروڑ کرنے سے کئی مقدمات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کیے گئے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب ایک ہی ملزم پر کئی مقدمات بنا لیتا ہے جن میں سیکڑوں گواہان ہوتے ہیں، سیکڑوں گواہان کی وجہ سے نیب کے مقدمات کئی کئی سال چلتے رہتے ہیں، اصل چیز کرپشن کے پیسے کی ریکوری ہے، ریکوری نہ بھی ہو تو کم از کم ذمہ دار کی نشاندہی اور سزا ضروری ہے، یہ درست ہے کہ نیب قانون میں کئی خامیاں ہیں اور اس کا اطلاق بھی درست انداز میں نہیں کیا گیا لیکن عدالت یہ تعین نہیں کرسکتی کہ پچاس کروڑ کی حد مقرر کرنا درست ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو مطمئن کریں کہ کوئی جرم ختم نہیں کیا، بہت سے اچھی ترامیم بھی کی گئی ہیں جیسا کہ اپیل کا حق، ضمانت، ریمانڈ والی اچھی ترامیم ہیں یہ سب ترامیم انسانیت کی بنیاد پر کی گئیں کیوں کہ لوگ بغیر سزا کے برسوں تک جیل میں رہتے تھے، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ کہیں ان ترامیم سے کوئی غلط دروازہ تو نہیں کھول دیا گیا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم اتنا ہی بڑا مسئلہ ہوتا تو کوئی شہری انہیں چیلنج کرتا، کسی مالیاتی ادارے نے ترامیم چیلنج کیں نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے، ایک پارلیمان کے بھگوڑے سیاست دان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، نیب ترامیم کن بنیادی حقوق سے متصادم ہیں آج تک سامنے نہیں آ سکا، عجیب سی بات ہے کہ اس مقدمے کو ہم اتنے عرصے سے سن کیوں رہے ہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے، پی ٹی آئی کے دور حکومت کے وفاقی وزرائ بھی نیب کے سبب پیدا ہونے والے مسائل پر بیانات دیتے رہے، اگر کوئی عام شہری عدالت آتا تو عدالت اس معاملے کو دیکھ سکتی تھی، آئین میں بہتر طرز زندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس معاملے کو بھی دیکھنا ہے کہ کرپشن کے جرم کو محض کاغذی کارروائی تک محدود تو نہیں کر دیا گیا، اگر آپ کہیں تو ہم نیب ترامیم کے خلاف پبلک نوٹس جاری کر دیتے ہیں اس پر مخدوم نے کہا کہ جی ٹھیک ہے آپ پبلک نوٹس جاری کردیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کافی وقت سے کیس سن رہے ہیں اب ایسا نہیں کر سکتے، ہمارے پاس وقت کم ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیوں نہ ہم نیب ترامیم کا معاملہ نئی آنے والی پارلیمنٹ پر چھوڑ دیں، نیب ترامیم کے ماضی سے اطلاق کے بارے کل دلائل دیں۔مزید سماعت کل پھر ہوگی۔