پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیس مقررنہ کرناسمجھ سے بالاترہے،جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ

اسلام آباد(سی این پی )سپریم کورٹ نیپریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کیس کی 29 اگست کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا،8 صفحات کے حکمنامے میں جسٹس منصور علی شاہ کا 4 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔

عدالت عظمی نے تحریری حکمنامہ میں کہا ہے کہ8رکنی بنچ نے 13 اپریل اور دو مئی کے آرڈرزمعطل کیے، بینچ میں اِس اسٹیج پر تبدیلی ضروری نہیں،حکومت کی جانب سیان آرڈرز کو واپس لینے یا تبدیل کرنے کی درخواست نہیں کی گئی، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ معطل ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا،8رکنی بنچ نے 13 اپریل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع دیا،4 ماہ سے زائد گزرنے کے باوجودپریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیس مقررنہ کرناسمجھ سے بالاترہے۔

اختلافی نوٹ کے مطابق سپریم کورٹ اس وقت حکم امتناع کی غیر یقینی صورتحال میں کام کر رہی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فوری فیصلہ دیاجائے تاکہ عدالت قانون کے تحت کام کرسکے،اورجب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ زیرالتوا ہے سماعت روک دی جائے ،اورکیس جاری رکھنے کی صورت میں سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دی جائے،ملٹری کورٹس کیس میں بھی میرا موقف یہی تھا کہ فل کورٹ کیس سنے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹ کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق فیصلہ نہایت اہم ہوگا،ایکٹ کیحق میں فیصلہ آیا تو نیب ترامیم کیس قانون کی نظر میں غیرموثر ہوجائے گا،ایکٹ پر فیصلہ نہ ہونے تک خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی، پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ بننے کے بعد سپریم کورٹ رولزتبدیل ہوچکے ہیں،پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کیس کافیصلہ قانونی طریقے سیچلانیکیلئے ناگزیر ہے۔