شوگرملز مالکان ، بروکرز کی ملی بھگت ،ہائی کور ٹ کا حکم امتناع چینی قیمتوں میں اضافے کا سبب،خفیہ رپورٹ پنجاب حکومت کو پیش

اسلام آباد(سی این پی)شوگرملز مالکان ، بروکرز کی ملی بھگت قیمت میں اضا فہ کی کا ذمہ دار، شوگر ملز نے چینی افغانستان اسمگل کرنا شروع کردی ،پنجاب کی نگران حکومت نے چینی کی قیمتوں میں اضافے پر رپورٹ جاری کردی۔، رپورٹ کے مطابق چینی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ لاہور ہائیکورٹ کا حکم امتناع ہے، چینی قیمتوں پرحکم امتناع نے قیمتوں میں اضافے کی راہ ہموار کی، شوگر ملز کے تمام کیس مخصوص عدالت میں چلائے جاتے ہیں۔ شو گر ما فیا کون ہیں

،کاشتکار تنظیموں کے راہنما چوہدری یاسین،سید محمود الحق بخاری ،سردار یعقوب سندھو،نصیر نے بتا یا کہ ان میں پپلزپارٹی کے آصف علی ذرداری ،بلاول بھٹو ذرداری، سندھ میں سب سے زیادہ شوگر ملز ان کی ہیں جبکہ باقی پنجاب میں سابق وزیراعظم راہنما مسلم لیگ شہباز شریف، استحکام پاکستان پارٹی کے راہنما جہانگیر ترین، جنرل اختر عبدالرحمن کا بیٹا راہنما پی ٹی آئی ہمایوں اختر اور ان کا بھائی ہارون اختر، سابق وفاقی وزیر ،راہنما پی ٹی آئی خسرو بختیار، چیر مین کر کٹ بورڈ ، راہنما پی پی پی ذکااشرف، الطاف سلیم، چوہدری وحید، شمیم خان، میاں رشید وغیرہ۔ کی ہیں ،کاشتکار تنظیموں کے راہنما چوہدری یاسین،سید محمود الحق بخاری ،سردار یعقوب سندھو،نصیر وڑائچ ،ایم ڈی گانگا نے شوگر مل مالکان پر الزام عائد کر تے ہوئے کہا ہے کہ کہ شوگر مافیا سستے گنے سے ملک میں تیار ہونے والی چینی کی سٹہ بازی اور اسمگلنگ کی مد میں غیر قانونی طور پر شوگر مافیا اربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ کرچکاہے

چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ معاملہ جس کا ازخود نوٹس لیں کیپٹل نیوز پواینٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہا کہ ۔ عوام کو اس مافیا نے اتنی بے دردی لوٹ رہے ہیں انھوں نے کہا کہ عوام کی جیبوں پر مافیاز کا چینی ڈاکہ ملک میں چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور عوام کی جیبوں پر وہ ڈاکہ مارا گیا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ ڈاکہ زنی شوگر مل مالکان نے عدالت عالیہ لاہور کی طرف سے ملوں کے حق میں جاری کردہ سٹے آرڈر کے بعد کی ہے اور اندازہ ہے کہ اب تک صرف پنجاب میں پچاس ارب روپئے کی ناجائز منافع خوری بلکہ لوٹ مار کر چکے ہیں

پنجاب حکومت کی رپورٹ کے مطابق چینی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ لاہور ہائیکورٹ کا حکم امتناع ہے، چینی قیمتوں پرحکم امتناع نے قیمتوں میں اضافے کی راہ ہموار کی، شوگر ملز کے تمام کیس مخصوص عدالت میں چلائے جاتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں بےتحاشہ اضافہ کیاجا رہا ہے، شوگر ملز، بروکرز اور سٹہ بازوں کے ذریعے ناجائز منافع کمایا جا رہا ہے، فیصلے سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے محکمہ خوراک نے کابینہ کے لیے سمری پیش کی، کابینہ نے پنجاب فوڈ سٹفز آرڈر کے ذریعے قیمت کے تعین کا اختیار کین کمشنر پنجاب کودیا تھا۔ کین کمشنر نے ایکس مل قیمت کے تعین کا عمل شروع کیا، کرشنگ سیزن کے دوران ملک میں کل 7.7 ملین میٹرک ٹن چینی پیدا ہوئی، 5 ملین میٹرک ٹن چینی کا ذخیرہ پنجاب میں تھا، پنجاب کے ذخائر مربوط خطے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھے۔

مئی 2023 کوجسٹس شاہد کریم نے اس اعتراض پر کہ قیمتوں کے تعین کا موضوع صوبائی ہے اگلی تاریخ 20 ستمبر مقررکردی، کسی نہ کسی بہانے اسٹے آرڈر کی تاریخوں میں توسیع کی جارہی ہے، شوگر ملز اور سٹہ باز ایک سو روپے فی کلو قیمت وصول کر رہے ہیں۔رپورٹ میں بتا یا کہ صوبائی حکام چینی کی افغانستان میں اس کی سمگلنگ کو روکنے سے قاصر ہیں، اسمگلنگ نے ملک اوربالخصوص پنجاب میں چینی کے اسٹریٹیجک ذخائرکوختم کردیا ہے، یہ ذخائر آنے والے سال میں چینی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تھے، گنے کی فصل کی کاشت میں 17 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، اگلے سال پاکستان کو چینی کی درآمد پر خاطر خوا زرمبادلہ خرچ کرنا پڑ سکتا ہے۔ شوگرملز اوربروکرز کا گٹھ جوڑ قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار ہے، عالمی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے شوگر ملز نے چینی افغانستان اسمگل کرنا شروع کردی، چینی کی قیمتیں بروکرز مختلف واٹس ایپ گروپس کے ذریعے بڑھاتے ہیں، چینی کی صورتحال دن بدن سنگین ہوتی جارہی ہےچینی کی قیمت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، حکم امتناع کوختم کرنے کی ضرورت ہےورنہ ملک اورصوبہ مزید بحران کا شکارہوگا۔ بتا یا کہ ہ قیاس آرائی کرنے والوں نے چینی مارکیٹ میں تقریباً تباہی مچا رکھی ہے، قیاس آرائی کرنے والوں کوایم پی او کے تحت حراست میں لینے کی ضرورت ہے، شوگرملز، ڈیلرز، بروکرز، قیاس آرائیاں کرنے والوں نے مہنگی چینی بیچ کر 55 سے 56 ارب روپےہتھیائے، ہرمل میں پانچ چھ بروکر ہوتے ہیں جوڈیلرزکوچینی فروخت کرتے ہیں۔ چینی کی قیمت میں اضافہ ڈبل سنچری کے بعد بھی جاری ہے اور کوئٹہ میں ایک کلو چینی 225 روپے، پشاورمیں چینی 220 روپے اور کراچی میں 185 سے220روپے کلو میں دستیاب ہے۔