سپریم کورٹ میں تاریخ رقم۔۔۔فل کورٹ براہ راست نشر

اسلام آباد(سی این پی)سپریم کورٹ میں تاریخ رقم ہوگئی، نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰنےفل کورٹ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سماعت براہ راست نشر کر کے عوام کو تحفہ دے دیا

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 15رکنی فل کورٹ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ایکٹ کے خلاف اپیلوں پر فل کورٹ بنانے کی درخواستیں منظور کر لی،وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس انڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی۔ وفاقی حکومت نے موقف اپناتے ہوئے استدعا کی کہ پارلیمنٹ کے قانون کے خلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں لہٰذا درخواستیں خارج کی جائیں۔

وفاقی حکومت نے تحریری جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا جس کے مطابق پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے نیچے قانون سازی کر سکتی ہے اور آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی اور ایکٹ کے تحت کوئی اختیار سپریم کورٹ کا واپس نہیں لیا گیا، میرٹ پر بھی پارلیمنٹ قانون کے خلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ میرے لیے قابل فخر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، امید ہے بار اور بینچ مل کر کام کریں گے۔چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تاخیر سے آنے پر معذرت خواہ ہوں، ہم نے براہ راست کوریج کی اجازت دے دی ہے اور براہ راست کوریج میں خلل نا آئے اس لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ خواجہ طارق رحیم اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیے گا کیونکہ بینچ میں کچھ ججز ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ کیس سن رہے ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں فل کورٹ کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو بھول جائیں آج کی بات کریں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 5 میں اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر کیا کہیں گے، اگر ہم نے فل کورٹ پر کیس کا فیصلہ کرلیا اور قانون درست قرار دے دیا تو اپیل کا حق کہاں جائے گا۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میں اس پر دلائل دوں گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب، پورا قانون پڑھیں، قوم کا وقت بڑا قیمتی ہے۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ 1980 کے رولز کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کی عوام کے 57ہزار مقدمات انصاف کے منتظر ہیں، آپ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پڑھیں۔ وہ الفاظ استعمال نا کریں جو قانون میں موجود نہیں ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے 1980 کے رولز کا بھی حوالہ دیا۔جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ آپ پہلے قانون پڑھ لیں آپ کی بڑی مہربانی ہوگی جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کس رول کا حوالہ دے رہے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ قانونی معروضات کی طرف آئیں، جو ماضی میں ہوا کیا آپ اسے سپورٹ کرتے ہیں، دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے بھی سوال کیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر ہر طرف سے سوال ہوگا تو آپ کو جواب دینے میں مشکل آئے گی، آپ فوری طور پر سوال کا جواب نا دیں، سوالات نوٹ کرلیں اور پھر جواب دیں، جس طرح آپ چاہتے ہیں دلائل دیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 191کو پڑھیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ عدالت کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ شییڈول کے تحت سپریم کورٹ کا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے قانون پڑھیں پھر تشریح کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اختیارات سماعت اور اختیار کا ذکر قانون میں نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو ریگولیٹ کرے، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ 1980 کے رولز آئین سے متصادم ہیں۔خواجہ طارق نے کہا کہ 1980 کے رولز فل کورٹ نے بنائے تھے اور وہ رولز درست ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئین وقانون کو اس قانون نے غیر موثر کر دیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ مستقبل کی بات نا کریں اور اپنے دلائل کو حال تک محدود رکھیں، مستقبل میں اگر قانون سازی ہوئی تو آپ پھر چیلنج کر دیجیے گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 3رکنی کمیٹی کو آرٹیکل 184کی شق 3 کے اختیار کی اجازت دینا کیا یہ عدالتی اختیار ہے یا انتظامی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ہے جس میں آرٹیکل 184کی شق کے استعمال کا طریقہ کار موجود ہے، اس فیصلے میں اصول طے کیا گیا کہ کوئی بینچ آرٹیکل 184کی شق تین کے استعمال کے لیے چیف جسٹس کو معاملہ بھیج سکتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے چیف جسٹس پاکستان نے کہا سوال لکھ لیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے تو عدالتی اختیار کو ختم کر لیا گیا ہے، پارلیمنٹ نے قانون بناکر جوڈیشل پاور کا راستہ بند کر دیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پبلک انٹرسٹ کی تعریف کیا ہے اور آپ کس کی طرف سے دلائل دے رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ کو ناقابل اجتناب چیف جسٹس کے اختیارات کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں۔

خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پارلیمنٹ نے تو اختیار لے لیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون سازی سے چیف جسٹس کے اختیارات کو ختم کردیا گیا ہے۔ایڈوکیٹ طارق رحیم کے جواب پر چیف جسٹس نے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پھر جواب دینے بیٹھ گئے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کو واپس لیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے اختیارات کو ختم کیا گیا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ آپ متفق ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان ماسٹر آف روسٹر ہیں۔خواجہ طارق رحیم نے دلائل میں کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ اختیار پارلیمنٹ استعمال نہیں کر سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 17 ججز فل کورٹ کے ذریعے اختیارات کو ریگولیٹ کرسکتے ہیں لیکن پارلیمنٹ نہیں کرسکتی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے ساتھی ججز سے درخواست کر رہا ہوں اور آپ ہماری مدد کے لیے آئے ہیں، اگر ہرطرف سے سوالات کی بمباری ہوگی تو کیس نہیں چل سکے گا، آپ اپنے طریقے سے دلائل دیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس فوجی آمر کا ایک قانون تھا، کیا فوجی آمر کا قانون درست ہے یا پارلیمنٹ کی کی گئی قانون سازی درست ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلے صرف یہ بتا دیں پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی ہے یا غیر آئینی؟خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ اپیل کا حق دینے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون غیر آئینی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کرسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ دلائل دیتے ہوئے آگے بڑھیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بیرونی جارحیت کے خطرات کو روکنے کے لیے عدلیہ کی خود مختاری کا تصور ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نہیں چاہتے آپ ہر سوال کا جواب دیں اور ہم یہاں ایک دوسرے سے بحث کرنے نہیں آئے، ایک سیکشن اور پڑھ لیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرا ایک سوال اور ہے، کیا سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات پارلیمنٹ کو سونپنا اختیارات کی تقسیم کے تصور سے متصادم نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی ایک آئینی آرٹیکل کا حوالہ نہیں دیا، ہم نے خود سے ازخود نوٹس نہیں لیا، آپ خود عدلیہ کے دفاع کے لیے رونما ہوئے ہیں اور اچھی بات ہے آپ میرے حقوق کی بات کر رہے ہیں لیکن یہاں سوال کسی کے حقوق کا نہیں بلکہ آئینی سوال ہے، میرے دوست ججز کے سوالات بہت اچھے ہیں لیکن ابھی صرف سوالات نوٹ کرلیں،بعد ازاں عدالت میں مختصر وقفہ کر دیا گیا۔