اسلام آباد(سی این پی)سپریم کورٹ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ فوجی آمر ہویا کوئی اور فرد واحد کااختیار ہمیشہ تباہی لاتا ہے ۔ اس قانون کا اثر چیف جسٹس اور دیگر 2ججز پر ہوتا ہے، ایک طرف چیف جسٹس کے اختیار کو کم کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب سینئر ججز کو اختیار بانٹا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جنگ کا لفظ بہت معنی خیز ہے، کچھ کہتے ہیں کہ اختیار پارلیمنٹ کا ہے اور کچھ طبقے کہتے ہیں پارلیمنٹ کا نہیں ہے، میں نے سوچا میں خود اس کیس کو نا سنوں، سپریم کورٹ اگر ایک ہی کیس سننے کو بیٹھ گئی تو دیگر کیسز متاثر ہوں گے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بارے پارلیمنٹ آمنے سامنے ہے۔اگر بینچ میں سے کوئی سوال پوچھے تو اسے نوٹ کر لیں، میں بطور چیف جسٹس اپنے اختیارات سینئر ججز کے ساتھ بانٹ رہا ہوں، یہ سوال بھی اہم ہے کہ آنے والے چیف جسٹس صاحبان اختیارات بانٹنے کو درست قرار دے رہے ہیں یا نہیں۔ پہلے سوچا خود بینچ میں نا بیٹھوں، پھر طے کیا تمام ججز اس کیس کو سنیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے ریکارڈ کے لیے اسپیکر کو خط لکھا، ہم اخباری خبر پر انحصار نہیں کریں گے اور اخبارات کیا کہتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہ پوری قوم کا کیس ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تاثر نا دیں آپ پوری قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ایک سابق وزیراعظم کی خواہش تھی کہ چیف جسٹس کو پارلیمان طلب کرے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فورم کو سیاسی مباحث کے لیے استعمال نہ کریں، اب پانی دریا کے پل کے اوپر سے گزر چکا ہے، حسبہ قانون کبھی ایکٹ آف پارلیمنٹ بنا ہی نہیں لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بن چکا ہے، اب سوال یہ ہے کہ قانون درست ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے اکیسویں ترمیم کیس میں قرار دیا کہ عدالت آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہے، اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون آئینی ترمیم سے بنتا تو پھر سپریم کورٹ اس کا جائزہ لے سکتی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کی آزادی خود ایک نایاب چیز ہے یا عدالت کی آزادی لوگوں کے لیے ہے، اگر عدالت کی آزادی ہوگی تو عوام کے لیے بہتری ہوگی، اگر پارلیمان قانون بناتی ہے کہ بیواو¿ں کے مقدمات کو ترجیح دی جائے گی تو کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کرسکتی ہے۔ ہم یہاں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔جسٹس سرمد طارق مسعود سے مشورے کے بعد چیف جسٹس کا دلچسپ مکالمہ ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرے ساتھی جج نے مجھے روک لیا ہے۔اے کے بروہی صاحب کی کتاب کے حوالے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کتاب کے مطابق کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے ماتحت ہے، میں تو اس دلیل کو نہیں مانتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ کتاب 1958 میں چھپی، اس وقت پہلا مارشل لاءلگا تھا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اے کے بروہی صاحب کی کتاب پہلے مارشل لاءسے قبل کی ہے، امریکی آئین میں بھی اختیارات کا تکون کے تصور کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، کیا پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کا اختیار تھا، کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو اس طرح قانون سازی کرکے ریگولیٹ کر سکتی ہے، اصل سوال تو یہ ہے، کیا اسے عدلیہ کی آزادی کہتے ہیں اس کا جواب دیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اکرام صاحب میرا سوال بھی لے لیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے جج صاحب کے سوال کا جواب دینے دیں۔ آئین کے تحت کیسے قانون سازی کو خلاف قانون کہہ سکتے ہیں، آئین میں کیا لکھا ہے پارلیمان ایسی قانون سازی نہیں کرسکتی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس اور بھی کیسز ہیں، ہم نے اس اونٹ کو کسی کنارے لگانا ہے، قانون سازی سے کون سی آئینی شق متاثر ہو رہی ہے، ا?ج کے بعد یہ کیس نہیں چلے گا اور اگر آپ دلائل اس طرح دیں گے تو درخواست گزاروں کا وقت کم ہوگا، پھر ہم رات تک بیٹھ کر اس کیس کو سنیں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کا اختیار ہے یا نہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا عوامی فلاح کے لیے چیف جسٹس پاکستان کے لامحدود اختیار کو پارلیمنٹ ریگولیٹ نہیں کرسکتا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون نہیں بنا سکتی، جس پر جسٹس طارق مسعود نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کو کیوں قانون سازی کا اختیار نہیں۔ ایڈوکیٹ عرفان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بھی اس قانون سازی پر اختلاف تھا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا ججز اپنے اختیارات چیف جسٹس پاکستان کو خود سونپ سکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس اختیارات دوسروں کو سونپنے کا نہیں ہے، کیا پارلیمنٹ اختیارات وفاقی حکومت کو بھی سونپ سکتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پھر یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمے گا، کل پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کو سونپ دے گا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون انصاف کی رسائی کا ہے، پارلیمنٹ کیوں قانون سازی نہیں کرسکتا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی۔ وکیل حسن عرفان نے کہا کہ پارلیمان نے قانون سازی کی آڑ میں دراصل میں آئین میں ترمیم کر دی ہے، آرٹیکل 184 تین خاموش ہے کہ کون سا خاص حق متاثر ہوگا تو نوٹس ہو سکے گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ مفاد عامہ کی بات کر رہے ہیں جس میں آئین کے پہلے حصے میں لکھے بنیادی حقوق آتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا انصاف تک رسائی کے لیے قانون سازی نہیں ہو سکتی؟ درخواست گزار اس کیس سے کیسے متاثرہ فریق ہے؟وکیل حسن عرفان نے بتایا کہ میرا موکل وکیل ہے اور نظام انصاف کی فراہمی کا اسٹیک ہولڈر ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اس ایکٹ کے تحت عوام کا انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوا؟ وکیل حسن عرفان نے بتایا کہ چیف جسٹس اور ججز کمیٹی کو صوابدیدی اختیار مل گیا ہے کہ وہ میرے حقوق کی خلاف ورزی پر نوٹس لیں یا نہیں، کیا جب ازخود نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس تھا تو انصاف تک رسائی متاثر نہیں ہوتی تھی؟
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کے سیکشن تین کے تحت کیا کمیٹی طے کرے گی کہ ازخود نوٹس لینا ہے یا نہیں؟جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ انصاف تک رسائی کے لیے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی بنیادی حقوق سے جڑی ہے، پہلے بتائیں کہ ایکٹ سے انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوتا ہے، درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے ہم بہت آگے نکل چکے ہیں، ایک جانب کی دلیل ہے کہ بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں دوسری جانب کا ہے کہ نہیں ہو رہے، اگر بنیادی حق متاثر ہوتے ہیں تو یہ عوامی مفاد کا ایشو ہے، ایک فریق کہتا ہے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے اور دوسرا کہتا ہے متاثر نہیں ہوئی، ان سوالات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ درخواستیں قابل سماعت ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیا کمیٹی کے ذریعے اختیارات ریگولیٹ کرنا انصاف کی فراہمی کو متاثر نہیں کرتا۔
ایڈوکیٹ حسن عرفان نے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم چیف جسٹس اور ججز سب کا موقف یہی کہتا ہے کہ وہ آئین کا دفاع کریں گے، پارلیمنٹ اور ججز دونوں کے لیے آئین کے دفاع کا ذکر ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حلف میں آئین کے ساتھ ساتھ قانون کی پابندی کا بھی ذکر ہے، جب مارشل لائ لگتے ہیں پھر سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، اس کمرے میں لگی ہوئی ججز کی تصویریں بھی ہیں، جب پارلیمنٹ کوئی قانون بناتا ہے تو سپریم کورٹ آجاتے ہیں اور جب مارشل لائ لگتے ہیں تو کیوں سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرتے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ انصاف تک رسائی کے لیے بنیادی شرط آزاد عدلیہ بھی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر قانون کا مقصد انصاف تک رسائی ہے تو فل کورٹ کے خلاف اپیل کا حق کیوں نہیں حاصل ہوگا؟ کیا فل کورٹ کے خلاف اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں؟وکیل حسن عرفان نے دلائل میں کہا کہ قانون سازوں کے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی آیا ہی نہیں تھا۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اپیل کا حق برقرار رکھنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ فل کورٹ یا لارجر بینچ کا راستہ بلاک ہوگیا۔ وکیل حسن عرفان نے بتایا کہ پارلیمان سپریم ضرور ہے لیکن آئین کے بھی تابع ہے، چیف جسٹس، وزیراعظم اور صدر تینوں نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حلف میں آئین کے ساتھ قانون کا بھی ذکر ہے اسے مدنظر رکھیں، جب مارشل لائ لگتا ہے سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں اور مارشل لائ لگے تو حلف کو بھول جایا جاتا ہے، پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آ جاتا ہے، مارشل لائ کے خلاف بھی درخواستیں لایا کریں وہاں کیوں نہیں آتے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہاں مارشل لا نہیں ہے، آپ اگلے مارشل لا کا دورازہ کیا ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں؟ پارلیمنٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اختیار بڑھا دیا گیا، کیا آپ کا موقف یہ ہے اپیل کا حق نہ ہو بس سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے وہ حتمی ہو۔وکیل حسن عرفان نے دلائل میں واضح کیا کہ میرا یہ موقف نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کہتی ہے کہ انہوں نے ٹھیک قانون سازی کی۔جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ کیا اہلیت نہ رکھنے کے باوجود پارلیمنٹ قانون بنائے تو اسے نیت اچھی ہونے کی بنا پر درست قرار دیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ظفر علی شاہ کیس میں ایک فرد کو تمام اختیارات دے دیے، کیا سپریم کورٹ نے فرد واحد کو اختیارات دے کر اچھا کام کیا، ریکوڈک کو دوبارہ کھولنے کے لیے ایڈوائزری اختیارات کے تحت استعمال کیا گیا، مولوی تمیز، نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے کہا فرد واحد جو آئین سے کھلواڑ کرنا چاہے وہ کر لے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کی قدر کرنی چاہیے، ہمیں پاکستان میں آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی تاریخ کو نہیں بھولنا چاہیے، پہلے ہمارے صدر بار کہتے تھے کہ فلاں ڈاکٹرین کے دور میں کیس نہیں سنے، فرد واحد والے یا فوجی آمر ہوتے ہیں یا کوئی اور ہوتے ہیں، فرد واحد کا اختیار تباہی پھیلاتا ہے، صرف چیف جسٹس کا فائدہ نہیں بلکہ لوگوں کے فائدے کی بات کرنی چاہیے۔