اسلام آباد(سی این پی)وفاقی دارالحکومت میں الفاظ اور ادب کا 3 روزہ جشن اختتام پذیر ہو گیا۔فیسٹویل میں اہل علم اور ادب کے مداحوں نے تین روز بھرپور شرکت کی،آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام نویں اسلام آباد لیٹریچر فیسٹیول کے تینوں روز مختلف کتب کی رونمائی ہوئی،ادب کی معاشرے پر اثرات کے حوالے سے جاندار سیشن ہوئے جبکہ مصنوعی ذہانت،تعلیم و تدریس ،صحافت،جمہوریت اور عدلیہ کے حوالے سے سیر حاصل بحث مبا حثے بھی جاری رہے۔فیسٹیول میں مختلف فلموں اور مشہور مصوروں کے فن پاروں کی نمائش بھی کی گئی ۔
اسلام آباد لیٹریچر فیسٹیول کی اختتامی تقریب میں سینیٹر شیری رحمان اور انور مسعود نے کلیدی خطاب کیا۔سینیٹر شیری رحمان نے گندھارا سیٹیزن کلب کو دوبارہ آباد کرنے کے اقدام کو سراہتے ہوئے اور اسلام آباد لیٹریچر فیسٹیول کے عنوان کی بھی تعریف کی ۔ا پنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری زمین بھی سی مشکلوں سے دوچار ہے اور ہمیں اپنی دنیا کو بچانے کیلئے ممکنات کی طرف دیکھنا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ گلیشیئرز کے پگھلنے،ہیٹ ویواور مون سون بارشوں کے ہم ذمہ دار نہیں ،لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ہم اپنی انفرادی ذمہ داریوں سے آزاد ہو جائیں۔مشیروں کی کوئی فوج بھی کسی بھی حکومت کیلئے پالیسی بنا لے تو وہ نا کام ہی ہو گی جب تک ہر فرد انفرادی طور پر دنیا کت بچاؤ کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کرے گا۔
معروف شاعر انور مسعود نے فیسٹیول کے اہتمام پر اکسفورڈ یونیورسٹی پریس کو خراج تحسین پیش کیا ۔انھوں نے ادب میں مزاح کی اہمیت اور اس کے معاشرے پر مثبت اثرات کے حوالے سے بات اقبال اور اس دور کے شعراء کو سراہتے ہوئے انھوں نے کہا شاعری ایک طویل عرصے سے غیر یقینی حالات میں لوگوں کیلئے سکون کا ذریعہ رہی ہے فن اور ادب کے ہمارے لئے امید کی کرن کا کام کرتے ہیں اور ان کے ذریعے ہم عام سے لمحات کو ا پنے لئے خاص بنا سکتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے مینیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین نے اپنے اختتامی خطا ب میں لوگوں کی بھرپور شرکت کو سراہا ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد لیٹریچر فیسٹویل میں ہونے والے سیشنز اور مباحثوں میں ہم نے انسانیت ،کرہ ارض اور صلاحیت کے دائروں کے مابین تعلق کے کھوج لگایا۔انھوں نے کہا کہ آج کل کے مشکل وقت میں آئیے ہم دنیا کے بچاؤ کیلئے متحد ہو کہ بیداری کو فروغ دیتے ہیں ایسی دنیا جو پائیداری اور ہمدری پر پروان چڑھے۔
اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے گیٹز فارما کے مینیجر کارپوریٹ کمیونیکیشن محمد میکال سومرو کا نے شاندار اور کامیاب فیسٹویل کے انعقاد پر منتظمین کی تعریف کی ۔ جبکہ نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی فیسٹویل کے تینوں دن شرکت کی ۔حیا فاطمہ سہگل کی کتاب Resilient Pakistan- The Sociocultural Impact کی رونمائی کی تقریب کی صدارت راحیلہ بقئی نے کی ۔کتاب میں فاطمہ جناح کی زندگی سے جڑے متاثر کن پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے ۔مشاہد حسین سید نے حیا فاطمہ کے کتاب کو سراہا جبکہ راحیلہ بقئی نے کتاب کو روشنی کی کرن قرار دیا۔سینئر صحافی حامد میر اور توصیق حیدرنے پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے سیشن کا انعقاد کیا ۔حامد میر نے اس امید کا اظہار کیا کہ آنے والے نسلیں اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہو کے ملک کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کریں گی۔اسلام آباد لیٹریچر فیسٹویل دو ہزار تئیس میں اظہار رائے کیلئے ادب کی اہمیت ،روابط بنانے اور بڑھانے میں ادب کے کردار کو اجاگر کیا گیا۔فیسٹویل کے تیسرے اور اختتامی روز کے آغاذ میں اہم سیشنز کا انعقاد کیا گیا جن میں راول راج : راولپنڈی اسلام آباد تاریخ تہذیب کے حوالے سے سیشن میں جڑواں شہروں کی تاریخ کے حولاے سے گفتگو ہوئی۔جبکہ , Curriculum, Textbook, High Stakes Assessments- A Way Forward کے عنوا ن سے ہونے والے سیشن میں پاکستان میں نصابی مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔برصغیر کی تاریخ پر ‘آگ کا دریا : بر صغیر کی کہانی قراۃ العین کی زبا کے عنوان سے ہونے والے سیشن برصغیر میں ہونے والے دلخراش واقعات پر گفتگو ہوئی ۔سعادت حسن منٹو کے لکھے ڈرامے ‘آؤ ڈرامہ کریں پر سوانگ تھیئٹر گروپ نے ڈرامہ پیش کیا۔ اور Conversations with My Father: Forty Years on- a Daughter Responds میں منیزہ ہاشمی نے اپنے والد معروف شاعر فیض احمد فیض کے حوالے عائشہ سروری کے ساتھ اپنی یادوں پر مبنی گفتگو کی ۔
ایک اور متبادل سیشن میں پاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک کے مابینی ہم آہنگی اور امن و سلامتی کے قیام کے حوالے سے بات چیت ہوئی ۔’ جہاں آباد گلیاں’،’1970 کی دہائی کا آشوب’ کے عنوان سے ہونے والے سیشنز میں پاکستان کی تاریخ کے مختلف واقعات بیان کئے گئے ۔،دختر رومی ہماری مٹتی ہوئی زبانیں ‘، ‘عشق نامہ شاہ حسین،تصوف،ملامت ،سنگیت ، کلام از فرخ یار’ کے عنوان سے منعقد سیشنز میں شرکت کیلئے بھی فیسٹیول میں آئے لوگوں نے کافی دلچسپی دکھائی۔Harmony across Borders: The Quest for Peace and Security among Neighbours, کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں وکٹوریہ سکوفیلڈ نے پاکستان کی خطے میں جغرافیائی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کیلئے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔زاہد حسین نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اس خطے میں دنیا کی ایک تہائی آبادی اور تین ملک وہ موجود ہیں جو جوہری طاقت ہے۔اس خطے کیلئے امن ناگزیر ہےپاکستان کی خارجہ پالیسی اور معاشی چلینجز کے حوالے سے ملیحہ لودھی اور اعزاز چوہدری کے زیرصدارت سیشن میں بھی شرکاء نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ آخری روز بھی فسٹویل میں جاندار سیشنز جاری رہے جن میں پاکستان کی خارجہ پالیسی اور پاکستان کو درپیش مسائل ،انسانی حقوق اور ترجمہ نگاری کی اہمیت پر بحث مباحثے ہوئے جبکہ کاروبار اور معیشت اور فلم نگاری پر منعقدہ سیشنز بھی شرکاء کی توجہ کا مرکز رہے ۔’ کووڈ’ کے حوالے سے تخلیق کی گئی موسیقی پر مبنی ایلبم ‘اے آسماں نیچے اتر ‘ کی رونمائی کی تقریب بھی منعقد کی گئی۔
معیشت اور کاروبار کے موضوع پر ہونے والے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے نٹ شیل گروپ کے بانی اور سی ای او محمد اظفر احسن نے پاکستان میں ابھرتے ہوئے معاشی منظر نامے پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گر ہم ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، جو کم از کم 20 سے 30 سال تک جاری رہے۔ اور اس میں ضروری یہ کہ اس میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ اظفر احسن نے کہا کہ موجودہ سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے تاکہ ہم بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ہمیں حکومت، نجی اور سرکاری شعبوں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مضبوط تعاون کی ضرورت ہوگی۔ اسلام آباد لیٹریچر فیسٹویل کے اختتام پر غزل نائٹ کا انعقاد بھی ہوا جس میں استاد حامد علی خان نے نے نامور شعراء کی لکھی غزلیں گائیں
فیسٹویل کے تینوں روز شرکاء کو معروف مصنفین سے ملاقات اور ان سے گفتگو ، ادبی دنیا میں نئی آوزیں دریافت کرنے کا موقع ملا ۔اسلام آباد لیٹریچر فیسٹول نے شرکاء کو فکر انگیز گفتگو میں مشغول ہونے کا موقع بھی فراہم کیا ۔فیسٹویل کی جامع منصوبہ بندی نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ آنے والے کہ قارئین اور مصنفین سب کیلئے کچھ نا کچھ موجود ہو اور سب کسی نا کسی صورت میں مستفید ہوں۔