بیورو چیف اے بی این خالد جمیل کے خلاف ایف آئی اے ثبوت پیش نہ کر سکا،عدالت کا مقدمہ سے بری کرنے کا تحریری فیصلہ

اسلام آباد(خصوصی رپورٹر )سپیشل جج سینٹرل سلام آباد نے بیورو چیف اے بی این خالد جمیل کے خلاف ایف آئی اے میں درج مقدمے کا معاملہ عدالت نے خالد جمیل کی مقدمے میں بریت کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

تین صفحات پر مشتمل فیصلہ سپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نے تحریر کیاعدالت نے ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر خالد جمیل کو مقدمہ سے بری کر دیاحکومت اپنے ناقدین اور سیاسی مخالفین کو ریاست کا دشمن سمجھنے کے بجائے تنقید قبول کرنی چاہیے

فیصلہ حکومت کو اداروں سے اپنے شہریوں کی نفرت اور عدم اعتماد کو دور کرنا چاہیے، فیصلہ ریاست کو طاقت، اختیارات کے غلط استعمال اور بدنیتی سے پرہیز کرنا چاہیے، فیصلہ حکومت کو اپنے ناقدین ، اور مخالفین کی تنقید برداشت کرنی چاہیے ، فیصلہ طاقت اور اختیارات کے غلط استعمال اور بدنیتی سے اپنے شہریوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات سے بھی پرہیز کرنی چاہیے۔

فیصلہ ا یف آئی اے کی جانب سے ملزم کے خلاف ٹھوس ثبوت مہیا نہیں کیے گئے، فیصلہ ایف آئی اے کی جانب سے کی گئی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہارعدالت نے عماد یوسف کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا مذکورہ ٹوئٹ سے عدلیہ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

فیصلہ پاکستان میں عدلیہ پر عوام کو مکمل اعتماد اور یقین ہے جو ملزم کے کسی پیغام سے متاثر نہیں ہو سکتا۔ فیصلہ تحقیقاتی ادارے کی جانب سے کوئی ثبوت مہیا نہیں کیا گیا جس میں عدلیہ یا کسی جج کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہو ۔

فیصلہ آئین پاکستان کے مطابق ریاست کے ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہےعدالت نے محسوس کیا کہ اس طرح کی ایف آئی آرز سیاست دانوں صحافیوں یا سماجی کارکنان اور خاندان کے افراد کے خلاف درج کی گئی۔

فیصلہ عدالت یہ سمجھنے میں قاصر ہے کہ یہ افراد کس طرح ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔۔ فیصلہ ایسے اقدامات عوام میں خوف وہراس اور عدم تحفظ پیدا کرتے ہیں جس سے شہری آئین کے مطابق اپنے فرائض سر انجام نہیں دے سکتے۔۔ ایک جمہوری حکومت عوام کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چائیے پراسیکیوشن کی جانب سے یش کئے گئے ثبوتوں سے ملزم کی بدنیتی ظاہر نہیں ہوتی ۔فرد جرم عائد نہیں کیا جا سکتا۔ فیصلہ عدالت ملزم کو مقدمہ سے بری کرتی ہے ۔