اسلام آباد(سی این پی) سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کو نوٹس جاری کردیا۔ چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیا درست ہیں؟۔ شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی کی گئی تقریر پر برطرف کیا گیا۔
سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں؟،شوکت عزیز صدیقی نےسنگین الزامات عائد کئے ہیں اوراس کے نتائج بھی سنگین ہوں گے ،حامد خان نے کہا کہ میرے لگائے گئے الزامات درست ہیں۔ چیف جسٹس نے کیا ایک شخص کو جیل میں رکھ کر اپنے پسندیدہ شخص کو جتوانا مقصد تھا؟۔
جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا کہ فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟فوج کو چلاتا کون ہے؟، جس پر وکیل نے کہا کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سندھ بار شوکت صدیقی کی ہمدردی میں آئی کہ ان کو پنشن مل سکے تو یہ 184 تھری کا دائرہ کار نہیں بنتا۔ ہمیں نہ بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ عدالتی نظام کو استعمال کرنے کا الزام ہے۔ ہمارے بندے کو استعمال کر کے کیوں کہا گیا کہ نواز شریف انتخابات سے پہلے باہر نہ آئے؟۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر مسئلہ صرف پنشن کا ہے تو سرکار سے پوچھ لیتے ہیں، آپ کو دے دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے زیادہ نام فیض حمید کا لیا ہے۔ قمر باجوہ سے متعلق گفتگو تو سنی سنائی ہے۔ قمر باجوہ نے شوکت عزیز صدیقی سے براہ راست کوئی بات نہیں کی تھی۔
عدالت نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کو نوٹس جاری کر دیا ، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی،بریگیڈیئر عرفان رامے، سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو بھی نوٹس جاری کر دیا،کیس کی آئندہ سماعت تعطیلات کے بعد ہوگی ۔